نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ اور ان کی کتاب ’’الرَّوْضَةُ النَّدِيَّة شرح الدُّرَرُ البَهِيَّة‘‘
✍فؤاد أسلم المحمدي المدني
امیر الملک والا جاہ نواب (ابو الطیب صدیق حسن بن علی بن لطف اللہ الحسینی البخاری القنو جی)صاحب کا شمار ان صاحب ثروت علماء میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی دولت کو دینی امور اور اسلامی علوم کی نشر واشا عت کے لیے بےدریغ استعمال کیا۔ انہوں نے افادہ عام کے لیے بیسیوں کتابیں شائع کروائیں اور تمام بلادِ ہند وغیر ہند کو ان عظیم کتابوں سے بھر دیا ، مختلف اور دوردراز کے علاقوں تک بڑی بڑی کتابیں بیل گاڑیوں اور مواصلات کے دیگر ذرائع سے پہونچایا اور دیارِ ہند کو علم سے مالا مال کر دیا فللہ الحمد ۔آپ عربی ،فارسی ا ور اردو تینوں زبانوں میں لکھنے کی یکسا ں قدرت رکھتے تھے۔ مولانا سید نواب صاحب ۱۹؍ جمادی الاولیٰ 1248 ھ مطابق 1823ء کو بانس بریلی میں پیدا ہوئے،جہاں آپ کا ننھیال تھا ۔آپ کا سلسلہ نسب ۳۳ ؍ واسطو ں سے آنحضرت ﷺ تک پہنچتاہے۔آپ کا تعلق ہندوستان کے قدیم شہر قنوج سے تھا ۔
آپ پانچ برس کی عمر میں یتیم ہو گئے تھے ، ابتدائی تعلیم محلہ کے مکتب میں ہی حاصل کیا ا ور دیگر علوم اسلامیہ کے لئے فرخ آباد چلے گئے، مزید حصول علم کے لئے دہلی روانہ ہوئے اور وہاں صدر الافاضل مولاناصدرالدین سے اعلی تعلیم حاصل کی ، ۲۱ ؍ سال کی عمر میں تمام علوم متداولہ سے فراغت کے بعد اپنے وطن قنوج واپس آگئے، تلاش معاش کے لئے دوبار بھوپال گئے ا ور یہ زمانہ ۱۸۵۷ کے غدر کا زمانہ تھا ، بڑی کسمپرسی میں زندگی گزری ، ایک بار ٹونک بھی گئے لیکن وہاں سے بھی دلبرداشتہ ہوکر واپس تیسری بار بھوپال گئے جہاں پر اس دفعہ عروج کی منزلیں آپ کا استقبال کرنے کو تیار تھی ۔
بھوپال میں آپ کا ایک عقد نکاح وہاں کے مدار المہام نائب اول کی بیٹی سے ہوا، لیکن دوسرا عقد وہاں کی رئیسہ رانی شاہ جہاں بیگم سے ہوا ، جو نوا ب صاحب کی ذہانت ، متانت ا ور فطانت سے بے حد متاثر تھیں۔ شاہ جہا ں بیگم ا ن کا بہت خیال رکھتی تھیں ، انکے تمام علمی کاموں کی مادی ا ور معنوی ہر لحاظ سے تائید کرتی تھی ۔ تو دوسری طرف نواب صاحب بھی ریاست کے کام کاج ا و رتعمیر وترقی میں برابر مصرو ف عمل رہتے تھے ۔
ہندوستان اور دیگر ممالک میں کتب علوم اسلامیہ کی اشاعت اور عمل بالحدیث کی تحریک کیے لئے جو کامیابی نوا ب صاحب کے حصے میں آئی وہ کسی اور کے لئے نہ تھی، عقائد اور رد بدعات پر آپ کی نادرو نایاب کتابیں اہل حدیث جماعت کے لئے بالعموم اور تمام ملت اسلامیہ کے لئے بالخصوص ایک عظیم سرمایہ ہیں ، شیخ الکل میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ سے آپکی مراسلت ہوتی تھی جس میں ہونے والی باتیں نواب صاحب کی حدیث اور علم حدیث کے تئیں حرص و شوق پر دلالت کرتی ہیں ۔ اس علم کے لئے نواب صاحب کی نصرت اور تائید ہر جگہ نظر آتی ہے، ایک طرف حدیث یاد کرنے پر جہاں آپ کاطلبہ کے لئے مقرر کیا گیا وظیفہ آج بھی لوگوں کے لئے مشعلِ راہ ہے،مثلا اگر کسی نے بلوغ المرام یاد کیا تو اسکے لئے اس زمانے میں تیس روپئے کا وظیفہ جاری کردیا جاتا تھا اور مشکوۃ یاد کیا تو پچاس روپئے اور اگر صحیح بخاری شریف یاد کر لیا تو سو روپئے کا وظیفہ جاری ہوجاتا تھا ، تو دوسری طرف آپ کے پاس چارچار پرنٹنگ پریس ہوا کرتے تھے جو شب و روز حدیث اور تفسیر کی کتابوں کو چھاپنے اور انکی نشر واشاعت کرنے پر مامور رہتے تھے۔ایک بار سفر حج پر آپ کا جہاز خراب ہوگیا جسکی وجہ سے کچھ عرصہ یمن میں رکنا پڑا ، وہاں آپ نے موقعے کو غنیمت جانتے ہوئےعلماءاسلام کی عظیم کتا بوں کی تنسیخ کا کام شروع کردیا ا ور نتیجے میں اہل ہند کو علامہ ابن تیمیہ، ابن القیم ، امام شوکانی، امیر صنعانی اور دیگر علماء کی کتب بہم پہونچ سکیں ۔
آپ کی تصنیفات کے بہتر ین موضوعات میں سے تفسیر ، حدیث ،فقہ، علوم القرآن ا ور تزکیہ وغیرہ زیادہ ا ہم ہیں حالانکہ اس کے علا وہ کئی فنون میں نواب صاحب علیہ الرحمہ نے خامہ فرسائی کی اور اپنے پیچھے تصنیف و تالیف کا عظیم تراث چھوڑ اہے ، آپ کی کل کتابوں کی تعداد تین سو سے چار سو تک ہے، جو کہ ہر طالب علم کو دیکھنی اور پڑھنی چاہیئے ۔ آخری عمر میں جب حالات دیگر گوں ہوگئے، تو زندگی عزلت گزینی میں تبدیل ہوگئی ، تاہم علمی انہماک اورتحقیق وتصنیف کا کام جاری رکھا، اور اسی حالت میں ۲۹؍ جمادی الآخر ۱۳۰۷ھ بمطابق ۱۸۹۰ ء کو آپ کا ا نتقال ہوا۔
نواب صاحب یمن کے علماء سے متا ثر ہوئے اور ان میں سے بالخصوص امام شوکانی رحمہ اللہ آپ کے فیوریٹ رائٹر بنے، جن کی کئی کتابوں کو نواب صاحب نے طبع کرکے تقسیم کرایا اور انکی ایک کتاب جو فقہ پر مشتمل ہے جس میں بغیر کسی تقلید و جمود کے، مسائل کو بلا کسی دلائل سے چھیڑ چھاڑ کئے ہوئے چند چھوٹے چھوٹے جملوں میں درج کر دیا ہے ، نہایت ہی مختصر ہونے کے باوجود فقہ کے تمام ابواب کو شامل ہے اور جسکی عبارت نہایت ہی جامع ہے اور الفاظ کے انتخاب میں اس قدر دقت برتی گئی ہے کہ کم الفاظ میں بڑے معانی اور چھوٹے سے جملے میں لمبی چوڑی تفصیل چھپی ہوئی ہے، جسکا نام ہے’’الدُّرَرُ البَهِيَّة في المسائل الفقهية‘‘ یہ کتاب حفظ کرنے کے لئے بہت شاندار کتاب ہے، برابر اسکے حفظ کے مسابقے چہاردانگ عالم میں منعقد ہوتے رہتے ہیں، والحمد للہ ۔
نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ اس فقہی متن کی تعریف کرتے ہوے لکھتے ہیں :” اس میں امام شوکانی رحمہ اللہ نے ایسی تحقیقات پیش کی ہیں کہ باقی کتب ان سے خالی ہیں، اور ایسی نفیس تدقیقات پیش کی ہیں جو دیگر اکابر کی کتب میں بھی نہیں ہیں، مطول فقہی کتابوں سے اس کتاب کی وہی نسبت ہے جو خالص سونے کی ڈلی کی معدنی مٹی سے نسبت ہوتی ہے” (الروضۃ الندیۃ :3)
چونکہ اس مختصر سی کتاب کو ایک شرح کی ضرورت تھی جسکے لئے خود صاحبِ متن امام شوکانی رحمہ اللہ نے’’الدراري المضيئةُ شرح الدُّرَرُ البَهِيَّة ‘‘لکھا اور بھی بہت سے علماء نے اسکی شرح لکھی جس میں سے نواب صاحب کی کتاب ’’الرَّوْضَةُ النَّدِيَّة شرح الدُّرَرُ البَهِيَّة في المسائل الفقهية‘‘ کو اللہ نے ایک عجیب قبولیت عطا فرمائی کہ ملک شام میں محدث عصر امام محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ اس کا درس دیا کرتے تھے اور اس پر ان کی تعلیقا ت بھی ہیں جو مطبوع ہوچکی ہیں ، بلا شبہہ مذہب الدلیل ماننے والوں کے لئے یہ کتا ب بہت مفید ہے جسے دنیا کے مختلف مدارس میں داخلِ نصاب کیا گیا ہے ۔ وبالله التوفيق