كتاب البيوع (بلوغ المرام)
اس کتاب کو یہاں لانے کا مقصد : احکامات میں وہ ابواب جو عبادات سے متعلق ہیں انہیں پہلے بیان کر دیا ہے کہ وہ سب ارکان اسلام ہیں، انہی پر اسلام کی عمارت ٹکی ہے، اس کے بعد معاملات کے ابواب میں داخل ہوئے اور اس میں بھی کتاب البیوع سے شروعات کیا، اسوجہ سے کہ بیوع و اموال وہ معاملات ہیں جن سے سب کا تعلق ہوتا ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، امیر ہو یا غریب، اس میں نکاح جیسا معاملہ نہیں ہے کہ وہاں عمر اور دیگر شرائط ضروری ہوں۔
اس کتاب کا مکمل نام: كتاب البيوع والأموال ہونا چاہیئے کیونکہ اس میں کئی ابواب ایسے ہیں جو خرید و فروخت سے کچھ بھی تعلق نہیں رکھتے ، ہاں البتہ اموال سے متعلق ہوتے ہیں اور چونکہ مال ، بیوع کے لئے جزو لاینفک ہے اسی لئے ان ابواب کو کتاب البیوع کے تحت ذکرکیا گیا ہے ۔
یہ بیوع بیع کی جمع ہے ، حالانکہ مصدر کی جمع نہیں آتی لیکن یہاں بیع کی مختلف انواع اقسام کو دیکھتے ہوئےاسکی جمع لائی گئی ہے۔
لفظ بیع اضداد میں سے ہےاس کا اطلاق بیع و شراء (خرید فروخت) دونوں پر ہوتا ہے۔
البيع لغةً : أخذ شيء وإعطاء شيء، فهو مشتق من الباع الذي يُمدُّ عند الصفقة، أو عند العقد .
البيع شرعاً واصطلاحاً: (عند الفقهاء) مبادلة مالٍ أو منفعةٍ مباحة بمثل أحدهما على التراضي والتأبيد غير رباً ولا قرضٍ.
شروط البيع: (۱) متعاقدين ( بائع ومشتری) کی رضامندی۔
(۲) دونوں کا بیع کے اہل ہونا یعنی مکلف و سن رشد والا ہونا۔
(۳) جس چیز پر بیع ہو رہی ہے وہ مباح النفع ہو ، یعنی اس سے نفع حاصل کرنا جائز ہو۔
(۴) عقد بیع کرنے والا اس چیز کا مالک ہو یا اسے اس عقد کی اجازت حاصل ہو۔
(۵) بیچی جانے والی چیز مجہول نہ ہو، دونوں کے لئے۔
ممنوع بیع : بیع میں اصل حلال ہونا ہے الا یہ کہ شریعت میں کسی بیع کے حرام ہونے پر کوئی دلیل آجائے ۔ ممنوعہ بیوع کی تین بنیادیں ہیں، جس میں بھی یہ چیزیں پائی جائیں گی وہ بیع حرام ہوگی:
1 – قاعدة الربا
2 – قاعدة الغرر والجهالة
3 – قاعدة الخداع والتغرير
“عمل الرجل بيده” آدمی کا اپنے ہاتھوں سے کام کرنا ، تین چیزوں پر مشتمل ہے۔
- الصناعة
- التجارة
- الزراعة
مخابرہ، اس کے معنی ہیں: زمین کو، اس کے کسی معین حصے کی پیداوار کے بدلے میں کرایے پر دینا نہ کہ اوسط کے حساب سے۔
مزابنہ : یعنی باغ کے پھلوں کو اگر وہ کھجور ہیں تو خشک کھجور کے بدلے میں ناپ کر بیچا جائے۔ اور اگر انگور ہیں تو اسے خشک انگور کے بدلے ناپ کر بیچا جائے اور اگر وہ کھیتی ہے تو ناپ کر غلہ کے بدلے میں بیچا جائے۔ آپ نے ان تمام قسم کے لین دین سے منع فرمایا ہے۔
المحاقلہ: محاقلہ یہ ہے کہ کھڑا کھیت معین اناج کے بدلے بیچا جائے ۔
بیع عربان: اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی ایک غلام یا لونڈی خریدے یا جانور کو کرایہ پر لے پھر بیچنے والے یا کرایہ پر دینے والے سے کہے کہ میں تجھے ایک دینار اس شرط پر دیتا ہوں کہ اگر میں نے یہ سامان یا کرایہ کی سواری نہیں لی تو یہ جو (دینار) تجھے دے چکا ہوں تیرا ہو جائے گا (اور اگر لے لیا تو یہ دینار قیمت یا کرایہ میں کٹ جائے گا) ۔اسی کو بیعانہ بھی کہتے ہیں، اسکی ایک صورت جائز تو دوسری نا جائز ہے۔
الخِيَار: (بكسر الخاء) اختار يختار کا اسم مصدر ہے ، اس کا معنی ہوتا ہے ’طلب خير الأمرين‘ یعنی دو باتوں میں سے کوئی ایک بات اختیار کرنا، اور یہاں بیوع میں وہ دو باتیں ہیں الفسخ و الإمضاء
خیار کئی طرح کا ہوتا ہے اسکی کئی قسمیں ہیں :
خیار المجلس یعنی ایسا اختیار جو مجلس میں ساتھ رہنے تک حاصل رہے۔( شرعا جائز ہے)
خیار عیب : ایسا اختیار جو کسی عیب کے ظاہر ہونے پر حاصل ہو۔
الربا
الربا: بكسر الراء ، من ربا يربو، (بالواو، اسم مقصور)
وهو لغة: الزيادة، ومنه قوله تعالى: {فَإِذَا أَنْزَلْنَا عَلَيْهَا الْمَاءَ اهْتَزَّتْ وَرَبَتْ} [الحج: 5] يعني زادت.
وشرعًا: زيادة في شيء مخصوص.
وهو محرَّمٌ بالكتاب والسنة والإجماع والقياس.
قال تعالى: {وَحَرَّمَ الرِّبَا} [البقرة: 275].
وفي صحيح مسلم (1598) عن جابر -رضي الله عنه- قال: “لعن رسول الله آكل الربا، وموكله، وكاتِبَه، وشاهِدَيْهِ، وقال: هم سواء”.
وأجمع المسلمون على تحريمه، وأنه من كبائر الذنوب.
والربا ظلم بيِّن، والقياس في الشريعة العادلة تحريم الظلم.
أقسام الربا:
- ربا الفضل: مکیل یا موزون کی بیع اسی کی جنس سے کرنا لیکن دونوں کی کوالٹی مختلف ہونے کی وجہ سے کمی زیادتی کے ساتھ بیع کرنا ۔ اسی کا ایک دوسرا نام ہے ربا القرض: وهو أن يقرضه شيئًا، ويشترط عليه منفعةً مقابل القرض، كسكنى داره ونحو ذلك ( قرض دیکر اس کے بدلے میں کسی منفعت کی شرط لگا دینا یا جتنا قرض دیا ہے اس سے زیادہ کی امید کرنا)
- ربا النسيئة.اسکی ایک شکل یہ ہیکہ ایک جنس کو دوسری جنس سے بیچا جائے لیکن سامان اسی مجلس میں نہ دیکر موخر کر دیا جائے