دینی ادب کی اہمیت و ضرورت ( ایک تبصرہ)

ایک ہوتا ہے دینی ادب 

اگر اس میں کفایت بھر چیزیں ہیں ( علماء دھیان دیں کہ انہوں نے اس جانب کتنا کام کیا ہے ) تو بے دینوں کی طرف التفات کئے بغیربھی آدمی با ادب بھی بنے گا اور ایک اچھا ادیب بھی بن سکتا ہے بلکہ یہیں سے ہی بلاغت کے عظیم دروازوں کو وا بھی کر سکتا ہے، حتی کے لبنان کے نصاری بھی مجبور ہیں اپنے بچوں کو قرآن یاد کرانے پر تاکہ کل کو وہ جس بھی پیشے یا فیکلٹی میں جائیں انکی عربی زبان سلیس، فصیح اور صاف ہو۔۔۔ اس باب میں جس قدر اور جس کوالیٹی اور جس کوانٹیٹی کے ساتھ ادب سے منسلق علماء کرام کی ادبیات مارکیٹ میں ہوں گی اسی قدر منحرفین کی ادبی غلاظتوں سے طلبہ دور رہ سکیں گے ۔ اس بارے میں اور بھی بہت سی باتیں ہیں جن کی تفصیلات کہیں اور بیان کی جا سکتی ہیں ، فی الحال کچھ کلیات پر بات مقصود ہے، باقی جزئیات تو عقلمند ازخود کشید کر ہی لیں گے۔

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دوسری سب سے اہم چیز ہے ادب میں تنقید کا پایا جانا، یہ جب تک ہے تب تک ادب زندہ ہے اور اس میں لکھنے والوں پر برابر احساس گماشتہ بنا رہتا ہے اور یہیں سے ادب سے وابستہ علماء بے حیا ادیبوں کی خبر لیتے رہتے ہیں اور انکی دینی بے راہ روی و عقدی کجروی کا پوسٹ مارٹم ادب سے کرتے رہتے ہیں اور یہ بھی ادب کی ایک خدمت ہے،لہذا  اس میدان میں بھی ادبی شاہکار ہونے چاہیئے ورنہ پھر تو کسی ایک قسم کے ادیبوں کا یا ایک ہی طرح کے ادب کا بدبو دار جمود طاری ہوجائے گا ۔

یہ بات ایسے ہی نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ اگر چہ منافقین بڑے چرب زبان اور بات بنانے والے رہے ہوں (وَإِن یَقُولُوا۟ تَسۡمَعۡ لِقَوۡلِهِمۡۖ )لیکن جب جب انکی طرف سے انکے زبان و بیان کے ماہرین نے کچھ کہا ہے بالخصوص دین و عقائد کے باب میں تو اہل حق نے بھی انکا بے باک جواب دیا ہے پورے ادب کے ساتھ اور یہی چیزیں بعد کو عظیم ادبی شاہکار شمار ہوئی ہیں۔ چاہے امام ابن الجوزی کی تحریریں ہوں یا  امام ابن قتیبہ دینوری کا معتزلہ کو دیا گیا کرارا جواب ہو، جو آج بھی آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے اور انکی کتاب “ادب الکاتب” تو ادیبوں کے لئے مرجع اور زبان دانوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے، حالانکہ وہ اعتزال کے ایک بڑے گرگے اور زبان دان “الجاحظ” کو جواب دیتے تھے اور علماء محدثین کی طرف سے اہل سنت کے دفاعی وکیل بھی تھے ۔الحمد للہ۔

اسی طرح سے مصر کے ادیب طہ حسین کو جو مغربی پرورش و پرداخت ملی اور اسنے الشعر الجاھلی وغیرہ لکھ کر جو گندھ مچایا اور اہل اسلام کو جاہلی ادب کا انتحال(اپنی طرف سے گھڑنے والا) کرنے والا باور کرانے کی ناروا کوشش کی تو اس کی ٹھیک ٹھاک خبر لینے والوں میں ایک بڑا نام تھا مصر کے ایک بڑے ہی دینی و علمی گھرانے کے چشم و چراغ اور عربی ادب کے امام شیخ العربية علامہ محمود محمد شاکر کا، جن کی دینی تعلیم و تربیت ایک طرف ، تو دوسری طرف تغریب (مغربیت زدگی) کو انکا جواب ہمیشہ ہمیش کے لئے طہ حسین کو پڑھنے والوں کے سامنے سر اٹھا کر کھڑا رہے گا اور زبان حال سے یہ کہہ رہا ہوگا کہ : تجھے ادب پڑھنے کا بڑا شوق ہے اور تو منصف مزاج بھی ہے تو مجھے بھی پڑھ۔

ڈاکٹر طہ حسین کا جواب دینے والوں میں سر فہرست تھے مصطفی صادق رافعی جنہوں نے ایک طرف جہاں طہ حسین کا رد کیا وہیں دوسری طرف “وحی القلم” و دیگر کتب سے ایک ایسا صالح ادب اہل عربیت کو پرووائڈ کر دیا کہ اگر وہ سستے اور گندے ادیبوں اور لٹریچروں سے بھاگیں تو انہیں ایک صاف ستھرا دینی ادب سامنے موجود ملنا چاہیئے جو دینی بھی ہو اور اجتماعی و انسانی فضیلت کا حامل بھی ہو ۔ 

بہر حال اس موضوع پہ ایک ہمہ جہتی کام کی ضرورت ہے ورنہ علماء کرام ادب سے دور اور  زبان و ادب دین سے دور والا جو دو متوازی اور متغایر ٹریک سماج میں پنپے گا تو اس کا آپس میں کبھی کہیں کوئی میل نہ ہو پائے گا، بلکہ اس سے تو کھائی اور بھی بڑھتی جائے گی۔

 

 

 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*