وہ محبت میں ڈوبی ہوئی شام تھی
ہر طرف تھے دھنک رنگ بکھرے ہوئے
گھل رہا تھا فضاؤں میں اک عطر سا
چل رہی تھی ہوا ایسے انداز میں
جیسے چوتھی کی دلہن کے دھیمے قدم
چاندنی ایسے چِٹکی تھی چاروں طرف
جیسے کوئی پری ، پنکھ پھیلائے ہو
اک ستارہ تھا ظلمت سے یوں بے نیاز
جیسے دیوانہ ، دنیا کو ٹھکرائے ہو
کسمساتی تھی پربت پہ ایسے گھٹا
جیسے کھلنے کو بے تاب بندِ قبا
پھر نظر آئی مجھ کو وہ خوشبو بدن
جیسے حرفِ دعا ، جیسے حرفِ سخن
نرم و نازک سی اک شاخِ گل کی طرح
دو کناروں کے بیچ ، اک پل کی طرح
اپنی آنکھوں میں کاجل لگائے ہوئے
اپنی پلکوں پہ بادل اٹھائے ہوئے
تھوڑی سمٹی ہوئی ، کچھ لجاتی ہوئی
نغمۂ دوستی ، گنگناتی ہوئی
کتنے مرجھائے پھولوں میں جان آئی تھی
میرے سپنوں میں ’اردو زباں‘ آئی تھی
(کاشف ابرارؔ)