جمعیت علماء ہند کے منچ سے مولانا ارشد مدنی صاحب نے اللہ اور اوم کو ماننے کی بات کہی تو اپنوں کی مخالفت سے پہلے جن کے لئے یہ ساری مجاملت رچی گئی تھی وہی اٹھ کر چلے گئے۔
امام الہند مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر ترجمان القرآن کے شروع میں ام الکتاب کے نام سے سورہ فاتحہ کی تفسیر لکھی ہے،ایک جلد میں بڑی ہی عمدہ اور نفیس کتاب ہے ، اس میں دیگر مذاہب میں خدا کا تصور کس طرح آگے بڑھا اور پھر کیسے کیسے خدا کو لیکر ان کے اندر گمراہیاں در آئیں، اور خاص کر ہندو مت جس میں کسی زمانے میں ایک ’’نراکار ‘‘خدا کو پوجا جاتا تھا اور اس کے لئے ان کے یہاں تنزیہ کا اتنا سخت اور غلو آمیز عقیدہ پروان چڑھا کہ لوگ خدا کو “وہ” کہنا بھی مناسب نہیں سمجھتے تھے کہ اس سے کسی سمت اشارہ لازم آتا ہے اور وہ ذات اشارہ و سمت جیسی چیزوں سے پاک ہے ، بالآخر اس تنزیہی گروہ کا انجام یہی ہونا تھا کہ انکے یہاں کسی ذاتِ موجود کی پوجا نہ ہو سکی لہذا وہ کسی معدوم کی پوجا کرتے رہے اور بہت جلد ہی ان کا یہ عدم صنم بن کر سامنے آیا اور پھر رنگ برنگی آکار کی مورتیاں اور انسانی ہاتھوں سے بنائے ہوئے خدا وجود میں آئے کہ دنیا ان کی گندگی سے بھر گئی۔
مولانا مدنی صاحب کا مذکورہ بالا بیان کس تناظر میں آیا ہے ، اس سے وہ برادران وطن کو رام کرنے میں کتنا کامیاب ہو پائے ہیں اور نام نہاد ہندوتوا کی مسموم فضاء سے وہ اس نعرے کے ذریعہ کتنا لوہا لے پاتے ہیں؟ یہ تمام باتیں تاریخی انداز سے سمجھنے کی ہیں کہ ماضی میں بھی لوگوں نے تقریب بین المذاہب کی کتنی کوششیں کیں لیکن قربت اور تقریب کا کہیں کچھ اتا پتا نہیں ہے، تاہم اس تقریبی تحریک کے بعض مخلص لوگوں نے تو تقریب بین المذاہب کا کام کرتے کرتے ایک نئے اور تیسرے مذہب کی ہی بنیاد رکھ دی جس سے لوگ مزید اور اختلاف و انتشار میں پڑتے گئے ، وغیرہ وغیرہ
اور اگر بفرض محال مان لیا جائے کہ مولانا صاحب تقابل ادیان جیسے کسی ڈائلاگ منچ سے مخاطب تھے جہاں پر کچھ مقدمات تسلیم کرنے پڑتے ہیں جدل کی خاطر،تو میرا صرف اتنا کہنا ہیکہ اس قدر تنازلات پیش کرنا کہاں کی عقلمندی ہےاور کفر و ایمان میں تقابل کیسا؟ حق اور باطل میں ڈائلاگ کیسے ہو سکتا ہے کیونکہ :
ستیزہ کار رہا ہے ازل تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی
مذہب اسلام کی جس آفاقیت اور عالمگیریت کا لوہا ماننے پر دنیا آج بھی مجبور ہے اسے بھی کئی بار تقریب بین المذاہب کی دعوت دی گئی ، لیکن اس نے اپنے شروعاتی مکی دور میں ہی اپنی تمام بے سرو سامانیوں کے باوجود یہ اعلان کر دیا تھا کہ { لَكُمۡ دِینُكُمۡ وَلِیَ دِینِ } اور جس دن دین اسلام مکمل ہوا اور نعمتوں کا اتمام ہوا تو اہل کفر کے لئے عام اعلان ہو گیا کہ {فَلَا یَقۡرَبُوا۟ ٱلۡمَسۡجِدَ ٱلۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِهِمۡ هَـٰذَاۚ} ۔
مولانا مدنی صاحب نے جس دعویداری کے ساتھ اللہ اور اوم کو ایک ماننے کی بات کی ہے وہ انکا دعوی بلا دلیل ہےکیونکہ اوم کی مختلف اور الگ الگ تشریحات کو سامنے رکھنے سے لفظ جلالہ ” اللہ” کی عظمت و ہیئت اور جلالت و معنویت کو وہ کبھی کسی بھی شکل میں نہیں پہونچ سکتا ہے، باقی رواداری اور مدارات کو بڑھاوا دینے کے اور بھی طریقے ہو سکتے ہیں، لیکن اس کے لئے اپنے دین و عقیدے پر مکمل استسلام کر دینا اور اپنے ویلوز کو لیکر پورا سرینڈر ہوجانا یہ کہیں کی عقلمندی نہیں ہے، بلکہ یہ سراسر انہزامیت کی دلیل ہے اور ہم میں سے ہر پڑھا لکھا شخص جانتا ہیکہ اقلیت میں رہتے ہوئے مسلمانوں کو جہاں ٹکراؤ کی پالیسی سے مکمل اعراض کرنا چاہیئے وہیں کامل استسلام سے بھی دور رہنا چاہیئے۔
لیکن کیا کریں گے ” قوموں کی حیات انکے تخیل پہ ہے موقوف” جب مولانا کا تخیل اور عقیدہ دیوبندی مکتب فکر کا تصوف والا عقیدہ ٹھہرا تو اب چاہے وہ وحدۃ الوجود کو مانیں یا وحدۃ الشہود کو یا پھر کسی دن وحدت ادیان کا ہی راگ الاپ دیں ، انکے صوفی ازم والے عقیدے میں اتنی لچک موجود ہے کہ وہ اللہ کو ہر جگہ موجود کہہ دیں اور اسے ہوا سے بھی تشبیہ دے دیں ،انہیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : { لَیۡسَ كَمِثۡلِهِۦ شَیۡءࣱۖ وَهُوَ ٱلسَّمِیعُ ٱلۡبَصِیرُ }
دوسری بات جو اللہ کی ذات و صفات کو لیکر مولانا نے کہی ہےکہ وہ نراکار ہے، جس کا کوئی روپ نہیں ، جس کا کوئی رنگ نہیں ، تو اس بات کے لئے مولانا کو خالص کتاب و سنت سے دلیل دینی پڑے گی اور یہ واضح کرنا ہوگا کہ ان الفاظ سے انکی کیامراد ہے؟ حالانکہ قرآن کریم میں اللہ پاک کی مختلف صفات کا ثبوت موجود ہے، لیکن اس معاملے میں مولانا کا جو مسلکی عقیدہ ہے وہ کافی کچھ ان کے بیان کا ساتھ دے رہا ہے اور وہ ہے اشعری ماتریدی مذہب کا عقیدہ ، یہ ایک کلامی مذہب ہے جس میں اللہ کی ذات و صفات کو لیکر اور کئی عقیدے کے مسائل میں عام مسلمانوں اور اہل سنت والجماعت سے الگ ہٹ کرفلسفیانہ روپ اختیار کیا گیا ہے امام ابو الحسن اشعری ، ابو منصور ماتریدی اور ابن کلاب کی تقلید کرتے ہوئے اور اللہ کی تمام کی تمام صفات کا انکار کرکے صرف اور صرف سات یا آٹھ صفتوں کو مانا گیا ہے، وہ بھی صرف منطق اور فلسفہ کی بنیاد پر، یہاں تفصیل کا موقع نہیں ہے ورنہ انکے یہاں اللہ کی صفات ذاتیہ اور صفات فعلیہ سے متعلق جو عقیدے ہیں ایک ایک کرکے آپ کے سامنے رکھتا اور کتاب و سنت سے اس منفی عقیدے کی تردید بھی کرتا۔
دراصل اس میں کچھ تعجب نہیں ہونا چاہیئے کہ خدا کو لیکر قدیم نراکاری ہندؤں اور جدید ماتریدی مسلمانوں کا عقیدہ اگر یکساں ہو جائے، تو اس میں کچھ تعجب نہیں کرنا چاہیئے ، ہاں البتہ عمومی مسلمانوں اور اہل سنت والجماعت کا صحابہ و تابعین کے عہد سے جو عقیدہ رہا ہے اور جسے ائمۂ اربعہ نے ثابت مانا ہےاس کو ثابت کرنا اور بھانت بھانت کی بولی بولنے والوں کے بیچ عقیدہ جیسے اہم اور حساس (Sensitive)موضوع پر کتاب و سنت کی صحیح ترجمانی ضروری ہے۔