کہاں بھلائی کے کام اور کہاں توحید کا پیغام (ایک توازن)

ایک گندی عورت جس نے ایک کتے کو پانی پلایا تو اللہ تعالی نے اس نیک عمل کی وجہ سے اس عورت کو بخش دیا اور اسے جنت میں داخل فرمایا ۔

ایک جانور کی پیاس بجھانا اللہ کو اتنا پسند آیا تو سوچو اگر کوئی کسی انسان کی پیاس بجھائے گا تو اللہ تعالی اس سے کتنا زیادہ خوش ہوگا ، ظاہر سی بات ہے اس عورت سے زیادہ ، ایسے ہی کسی مجبور آدمی کے کام آنے پر اللہ رب العالمین لوگوں کو بڑے بڑے انعامات سے نوازتا ہے ، تو میرے بھائی جب کوئی مسلمان کسی مسلمان کے کام آتا ہے ، اسکی مشکل حل کرتا ہے ، اسکے اوپر سے کرب و بلاء کو ہٹاتا ہے تو ایسی صورت میں اللہ اسے دنیا میں جو اجر و ثواب دیتا ہے وہ اپنی جگہ پر ، ساتھ ہی ساتھ کل قیامت کے دن اس کے اوپر سے مصیبتوں اور بلاؤں کو ہٹا دیگا، ہے نا بڑا انعام ، بڑی جگہ میں حاصل ہونے والا بڑا بدلہ ، دراصل بھلائی اور نیکی کا کام کرنے والے لوگوں کو ایسی ہی مومنانہ بنیادوں پر کی جانے والی بھلائیوں کی زیادہ سے زیادہ فکر کرنی چاہیئے ، حالانکہ ایک مومن کسی بھی نیکی کو حقیر نہیں سمجھتا، اسے جہاں بھی نیکی کا موقع ملتا ہے وہ کر گزرتا ہے۔

کسی کی پیاس بجھانا جس سے اسکی جسمانی تکلیف دور ہو اور اسے زندگی ملے ، کسی کی دنیاوی زندگی میں اسکے کام آنا جس سے اسکی دنیا میں کچھ آسانی آجائے ، واقعی یہ سب کرنے سے انسان کتنی عظمت و خوبی کا احساس کرتا ہے لیکن جب کسی بھٹکے ہوئے آدمی کو توحید کی دعوت دیکر ایک داعی اسکے اندر اسکی مردہ روح میں زندگی کا احساس ڈالتا ہے ، شرکیات کے دلدل میں پھنسے کسی کو توحید کا مضبوط بندھن عطا کرتا ہے تو بتاؤ بھائیو! یہ کتنے بڑے ثواب کا کام ہوگا جس سے اسکو دنیا میں بھی روحانی زندگی کا احساس ہوگا تو کل آخرت میں بھی وہ اللہ کی مغفرت اور جنت کا مستحق بنے گا ، یہی وجہ ہے کہ رسولوں کی بعثت صرف دنیوی یا جسمانی زندگی کی بہتری کے لئے نہیں ہوئی ہے بلکہ انبیاء علیہم السلام ایک طرف جہاں لوگوں کی روز مرہ والی زندگی سنوارتے ہیں وہیں انکی روح اور اسپرٹ کے اندر بھی جان پھونکتے ہیں اور انکی روحوں کو توحید کی زندگی عطا کرتے ہیں۔

بات بالکل واضح ہیکہ جسمانی زندگی سے کہیں زیادہ اہم ہوتا ہے انسانوں کے اندرون میں روح اور اسکی اسپرٹ والی اصلی زندگی کی حفاظت کرنا ہر طرح کی شرکیات و کفریات سے ۔

آج کچھ لوگ لوگوں کی ظاہری زندگی اور عیش و آسائش کامیاب اور محفوظ بنانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں ، روح کی غذا یعنی توحید و ایمانیات کو پسِ پشت ڈال کر ۔ تو دوسری طرف ایمان و اسلام اور وحدانیت کا پاٹھ پڑھانے والے توحید کے علمبردار انسانی بنیادوں سے دور بہت دور فقط اپنے پاٹھ اور پاٹھ شالہ میں ہی مگن ہوئے بیٹھے ہیں۔

بھائیو! ان دونوں الگ الگ اتجاہ والوں کی حالت دیکھ کر مجھے ترجیح کے اصول سے زیادہ مناسب لگتا ہیکہ ہم “الجمع أولى من الترجيح” والے اصول کو اپنائیں تاکہ کوئی بھی ایمانیات کا علمبردار یہ نہ کہے کہ ہمیں ایسی چھوٹی موٹی نیکیوں کی کیا ضرورت ہے جسے ایک زانیہ عورت بھی کر لیتی ہے بلکہ ہمیں اس ذہنیت کو پروان چڑھانے کی ضرورت ہے کہ اگر اس ٹائپ کی نیکیوں سے اللہ رب العالمین کسی گندی عورت کو بخش دیتا ہے تو ہم اہل ایمان و اہل توحید ایسی نیکیاں کرنے کے زیادہ حقدار ہیں جس سے ہم لوگوں کی صرف ظاہری پیاس ہی نہیں بلکہ انکے روح کی باطنی پیاس بھی بجھا سکتے ہیں، تو پھر اس طرح سے جس معاشرے اور انسان کی تشکیل ہو گی وہ ایک مکمل اور اندر باہر دونوں طرح سے صحت مند معاشرہ یا فرد کی تشکیل ہوگی جس کی جسمانی اور روحانی دونوں ہی زندگیاں کمال کی ہوں گی اور جس سے دنیا میں ہو رہے زوال کو ہم دور کر سکتے ہیں۔

 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*