آہ میرے شیخ علم و تحقیق کے آفتاب گراں مایہ نابغۂ روزگار علامہ محمد عزیر شمس اللہ کی قضاء و قدر سے اب اس دنیا میں نہیں رہے ، خبر تو بڑی غمناک، بہت ہی غیر متوقع ، انتہائی الم ناک اور روح فرسا خبر ہے لیکن ہم وہی کہیں گے جو ہمارے رب کی رضا ہو : إن لله ما أخذ وله ما أعطى وكل شيء عنده بأجل مسمى.
شیخ کا وجود علم و تحقیق کے میدان میں جماعت اہل حدیث ہی نہیں بلکہ پورے عرب و عجم لئے ایک عظیم ستون کی مانند تھا ، جس سے لوگ تحقیق و تعلیق ہی نہیں بلکہ علم و آگہی بھی سیکھتے تھے اور کتنے ہی طلبہ ایسے تھے جو دل ہی دل میں عزیر شمس بننے کا سپنا سنجوئے رہتے تھے ۔
میں نے خود پرسنلی شیخ سے جو استفادہ کیا ہے وہ چند ملاقاتوں کا گرچہ ہے لیکن اس کی تاثیر اور اثر پذیری صدیوں پر بھاری ہے ، کس بلا کا ذہن اللہ نے عطا کیا تھا ، قوت حافظہ کس وفور کا تھا کہ جیسے کوئی اللہ کی نشانی ہو، مخطوطات پڑھنا جہاں ان کا شوق تھا وہیں اس فن میں اللہ نے انہیں عبقریت عطا کر دی تھی ، وہ بھی شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا مخطوط پڑھنا جو کہ اس دور میں سب کے بس کی بات نہ تھی بلکہ کسی بھی دور میں شیخ کی تمام تحریروں کو پڑھ پانا ہر کسی کے لئے آسان نہ تھا بلکہ شیخ الاسلام کے عہد میں ہی آپ کی تحاریر کو ڈی کوڈ کچھ ہی لوگ کر پاتے تھے ۔
بات چل رہی تھی ہمارے شیخ علامہ محمد عزیر شمس کی اور ہم پہونچ گئے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کی تحریروں پر ، کیونکہ آپ کا تعلق ہے ہی علامہ ابن تیمیہ سے اتنا زیادہ کہ آج سے جب بھی کبھی معارف ابن تیمیہ پر بات ہوگی تو بغیر علامہ محمد عزیر شمس کے ابن تیمیہ کے شناوروں کی فہرست مکمل نہیں ہوگی ۔
عالم عرب میں بھی ابن تیمیہ اور ابن القیم کے تراث کو جب بھی کھنگالا جائے گا تو تقریبا اکثر انکی بڑی کتابوں کی تحقیق و تعلیق پہ شیخ محمد عزیر شمس کا نام ضرور نظر آئے گا ۔
عالم ، علماء، محققین، منتظمین اور دیگر صلاحیتوں کے مالک بہت ملتے ہیں دنیا میں لیکن شیخ محمد عزیر شمس کی بات ہی نرالی تھی انکا انداز ہی نرالا تھا ، وہ بلا کا تواضع ، ملنساری ، اپنائیت ، بے ساختگی ، صدق و صفا ، رقت آمیزی اور تکلف و تصنع سے وہ دوری کہ جس کی مثال ملنا اس زمانے میں بعید ہے۔
شیخ رحمہ اللہ کے علمی بیانات کے کئے اس لنک پہ کلک کیجئے 👇🏼