جاپان کی ترقی

ابھی ماضي قریب میں ہی جاپان نے بڑی دھما چوکڑی مچائی تھی، اسکی بھی نو آبادیات تھیں، انکا ظلم اسکے قد سے زیادہ بڑے ممالک نے جھیلا تھا ، چائنا تھائی لینڈ اور درجن بھر ممالک نے جاچان کی نوآبادیات دیکھی ہیں حتی کہ اسنے امریکہ کے “پرل ہاربر” بندر گاہ کو بھی تباہ کر دیا اور کافی یورپی ممالک کے اندر انگلی کرتا رہا، پھر امریکہ نے جب اس پر اپنا ننھا منا ایٹم بم ” لٹل بوائے ” گرایا تو وہ صرف مادی ہی نہیں بلکہ معنوی طور پہ بھی تباہ ہو گیا اور مولانا وحید الدین خان صاحب والے نسخے پہ چلتے ہوئے اسنے جنگ کا راستہ بدل کر دشمن کو ایک دوسرے میدان میں پیچھے کرنے کی ٹھانی اور وہ تھا ٹریڈ کا میدان پھر تقریبا ۳۰ سالوں کے اندر اسنے اسی امریکہ کی منڈیوں میں اپنا سامان اتارا اور انکے ٹریڈ کو پیچھے چھوڑ دیا بلکہ عالمی طور پہ یہ مانا جانے لگا کہ کسی چیز میں میڈ اِن جاپان لکھا ہو تو اسے لے ہی لیا جائے اور پھر دشمن/صارف کو رجھانے کے چکر میں جاپان امریکیوں کے رنگ میں پوری طرح رنگ گیا، دونوں ملکوں میں آنا جانا بڑھا، تہذیبوں کا مصنوعی تصادم دکھا تو جاپان نے اپنی تہذیب کو ہی اپنے سے اتار پھینکا اپنے صارف کو رجھانے کے لئے حتی کہ اب انکی تہذیبی چیزیں کہیں کہیں میوزیم میں کانچ کے اندر بند پائی جاتی ہیں صرف زائرین اور صارفین کو دکھانے کے لئے ، امریکہ نے تہذیبوں کا ٹکراؤ بہت پہلے ہی دکھانا شروع کر دیا تھا اور دراصل یہ تہذیبوں کا ٹکراؤ امریکی استعمار کا پیش خیمہ ثابت ہوا ، استعمار یا یلغار صرف فوجی اور عسکری نہیں ہوتا بلکہ اس میں فکری یلغار زیادہ بھیانک ہوتا ہے جہاں اپنے مبادئ ، عقائد ، روایات اور نظریات سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے اور وہی ہوا کہ جاپانی قوم روایتی طور پہ جو کل تک اوپر سے نیچے تک لانگ کپڑوں میں ملبوس نظر آتی تھی اب وہ بلکل ہی امریکی تہذیب میں رنگ کر ایسے تھری پیس اور بکنی میں آ گئی کہ امریکان بھی ان سے شرما جائیں، یہ سب تھا مرعوبیت اور تحلیلی ترقی کا نتیجہ جہاں جاپان پہونچکر امریکہ میں تحلیل اور جذب ہو گیا اور اس جذبی اور تحلیلی ترقی کا اسکی قوم کو اگر کچھ فائدہ ہوا ہے تو اپنا سب کچھ گنوا کر، متاع قلیل پایا ہے جہاں اس وقت بودھ دین تو دور کی بات الحاد کی پوری فکٹری کھڑی ہو گئی ہے، اور امریکہ میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق جاپان پورن انڈسٹری اور اباحی فلموں کا بڑا بازار بن گیا ہے ، جن لوگوں کے جاپان کے سفر ہوئے ہیں انہوں نے بتایا کہ ٹوکیو سے دور تین گھنٹے کی تیز رفتار ٹرین پکڑ کر ایک جگہ انکا روایتی پہناوا دیکھنے کے لئے جانا پڑتا ہے ،،، وغیرہ وغیرہ ،،،، اب اگر ہم کو بھی ایسی ترقی چاہیئے تو آئیں آگے اپنی تہذیبوں میں ٹکراؤ دکھا کر امریکی تہذیب کو اپنا کر ان سے مرعوب ہوکر خوب ” ترقی” کریں، اور ہر طرح کی سیکورٹی اور تحفظ حاصل کریں، یقین جانیں آپ کو ایسی مارکیٹ ملے گی جہاں آپ کا سب کچھ بک سکتا ہے اور بدلے میں ایسی بھاری قیمت مل سکتی ہے جس سے آپ دنیا کے سب سے چمکتے دمکتے ملک بن سکتے ہیں، بلکہ پولیٹکلی آپ کو ویٹو وغیرہ میں جگہ بھی مل سکتی ہے ، پر کیا؟ ﴿متاع قلیل ثم ماواھم جہنم وبئس المصیر﴾
فاعتبروا يا أولي الأبصار

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*