الأمن الفكري اور اپنی عمر سے زیادہ بڑھ کر باتیں کرنا

اپنی عمر سے زیادہ بڑھ کر باتیں کرنا

الأمن الفكري کے بے شمار کوشے ہیں، آج جگہ جگہ اسکی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں جیسے مثلا : اپنی عمر سے زیادہ بڑھ کر باتیں کرنا، دراصل یہ بتاتا ہے کہ لڑکا جوان ہونے سے پہلے ہی بوڑھا ہو چکا ہے۔

الأمن الفكري میں یہ بھی آتا ہے کہ سماج و معاشرے میں اگر کوئی چھوٹا بچا کھیل کود چھوڑ کر بوڑھوں کی باتوں میں دلچسپی لینے بیٹھا ہے تو اس کو وہاں سے بھگا کر کھیلنے کودنے کے لئے کہنا چاہیئے۔

الأمن الفكري میں یہ بھی آتا ہے کہ کسی کچی عمر کے بچے کو پکی کتابیں ، فلسفیانہ پوتھیاں و موشگافیاں اور معقد قسم کے مسائل والی کتابیں نہ پڑھنے دیا جائے ورنہ چھوٹی سی ہی عمر میں وژڈم کا پیخانہ کریگا اور جو نیچرل جذبابیت ہوتی ہے اس سے ہاتھ دھو بیٹھے گا ۔

الأمن الفكري میں یہ بھی آتا ہے کہ ایک بچہ جو ابھی چند نصوص یاد کرنا شروع کیا ہے ، زبان پہ کوئی قدرت بھی نہیں ہے، وہ یوٹیوب اور نیٹ سے معرکۃ الآراء فقہی بحثیں، اھوال قیامت کی باریکیاں، اشراط الساعہ اور حدیث الجساسہ و الدجال کے مباحث وغیرہ سرچ کرنے اور اپنا پوائنٹ آف یو طے کرنے لگ جائے تو والدین کو اس پر تالی نہیں بجانی چاہیئے بلکہ اپنے بچے کی خیر منانی چاہیئے۔

الأمن الفكري میں یہ بھی آتا ہے کہ اگر چھوٹی عمر کا بچہ بڑے بوڑھوں کی سی پختہ زبان اور اوور کانفیڈنٹ لب و لہجہ بولنے لگ گیا ہے ، اور اتنا بے جھجھک اور بڑی عمر والا مذاق کرنے لگ گیا ہے تو سمجھ جائیے کہ اس کا بچپن کسی احساس کمتری نے اتنا توڑا ہے کہ اب وہ سیدھے جاکر بڑھاپے کے اسٹیشن پہ بیٹھ گیا ہے جہاں سے واپس آنا مشکل ہی ناممکن بھی ہو سکتا ہے ، لہذا بچوں کو وقتا فوقتا عمل ، نشاط ، حرکت ، شجاعت ، بھاگ دوڑ اور اعلی کردار کے ٹاسک دیا کریں، گفتار کے کام پہ بعد میں لگنے کو بولیں۔

 

الأمن الفكري میں یہ بھی آتا ہے کہ مسائل کی اصل جڑوں کو دیکھا جائے، اوپر کی رنگ بدلتی پتیوں پر تبصرہ نہ کیا جائے، خواہ یہ کسی کی انفرادی زندگی سے متعلق ہو یا کسی قوم و ملک کا مسئلہ ہو ، لوگ اپنے یہاں لبالب ویسٹرن کلچر کا جام لئے چھلکا رہے ہیں اور کچھ تو ایسے ہیں جو وریجنل نہ ملنے پر چائنا مال سے ہی کام چلا رہے ہیں اور کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی لمبی لمبی زندگیاں ویسٹرن کے لئے حسرت بھرنے میں نکال دیا ہے اور ملا کچھ نہیں ہے ، اب یہی لوگ کسی ملک میں آئی ہوئی مغربیت اور ویسٹرن کلچر کی ایک “بیار” سے جھلسے جا رہے ہیں، دراصل یہ ایسی فکر ہے جس میں خود کا وائرس داخل ہو گیا ہے اور پورا سسٹم ہینگ کرنے لگا ہے بلکہ اس سے بھی آگے یہ منافقانہ سسٹم اس وقت کا سب سے لیٹیسٹ اور اپڈیٹڈ ورژن ہے جسے لانچ کرانے کے لئے ہر کوئی مارا پھر رہا ہے اور خود کو شاطر کہلانے یا ڈبل گیم کھیلنے کا خود کو سہرا باندھنے میں وہ فخر محسوس کرتا ہے کہ گویا یہی اسکی پیدائش کا ازلی مقصد تھا جو آج اسے حاصل ہوا ہے ۔

الأمن الفكري میں یہ بھی آتا ہے بچہ کسی بڑے کو نصیحت نہ کرنے پائے بایں طور کہ وہ بڑا جس فن اور تجربے کا امام ہو اسی میں ایک بے بہرہ بچہ اس کو سکھانے لگ جائے تو اس پر اس کی گوش مالی ضروری ہو جاتی ہے۔

 

الأمن الفكري میں یہ بھی آتا ہے کہ بچہ اگر وقت سے پہلے پختہ ہونے لگ جائے تو یاد رکھو جو حقیقی پختہ کار ، اکابر اور بڑے بوڑھے ہیں یکایک انکا اور انکے اصاغر کے درمیان سے فرق مراتب ایسا ختم ہو گا کہ اس کے بعد صرف غوغائیت اور رویبضیت ہی بچے گی ۔
نسأل الله السلامة والعافية

کتبہ
حافظ فؤاد أسلم المحمدی المدنی

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*