دوستی اور سنگت کے بڑے فوائد ہیں
اسکے اتنے گہرے اثرات ہوتے ہیں کہ بسا اوقات انسان کا اپنا خونی رشتہ وہ اثر نہیں ڈال سکتا ہے جتنا کہ دوستی اور صحبت کر دکھاتی ہے۔
ایسی صورت حال میں ایک انسان کے لئے، ایک زندہ دل اور ظریف انسان کے لئے دوست کا انتخاب بہت اہم ہو جاتا ہے بالخصوص حساس طبیعتوں کے مالک اس راہ میں کسی رینڈم کو ٹرائی کرنے کا کبھی نہ سوچیں، حساس ہی کیا ، بلکہ ہر ذی شعور آدمی کو اس معاملے میں نہایت ہی زیرک ، ہوشیار ، دیندار اور باذوق ہونا چاہیئے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس کی صحبت اچھی ہے اور کس کی بری؟ اس بارے لوگ طرح طرح کی بات کرتے ہیں ۔
ایک دینی نقطہ نظر سے اور ایماندارانہ رویہ دراصل یہ بتاتا ہے کہ دوست اچھا وہ ہوتا ہے جو آپ کا خیر خواہ ہو کیونکہ “الدين النصيحة” کے بحکم جہاں دین ہر کسی کو خیر خواہی کے بندھن میں باندھ رہا ہے، چاہے انکے درمیان کیسے بھی تعلقات ہوں تو وہیں دوست حضرات آپس میں خیر خواہی کا زیادہ حق رکھتے ہیں ۔
لیکن جب خیر خواہیوں کے مکھوٹے ہر گلی کوچے میں ملنے لگ جائیں، ہر کسی کے چہرے پہ مکاری کے بادل برابر منڈلاتے رہیں اور انسان کی اصلی شخصیت کا مطلع اتنا ابر آلود ہو جائے کہ جہاں کسی بھی قسم کی کوئی بھی رؤیت ممکن نہ ہو تو ایسی صورت میں ایک اصول بہت اہم ہے جو تمام اشیاء کی پرکھ اور ان میں خیریت و بہتری جانچنے میں ہمیشہ سے کارگر رہا ہے بلکہ اسی کو سلف صالحین نے ہر ابتلاء و آزمائش اور عذاب و عقاب کے درمیان فرق کرنے کے لئے اپنایا ہے اور وہ ہے کہ جو تمہیں اللہ سے قریب کرے تو جان لو کہ وہ تمارے حق میں ہے ۔
یہی اصول اگر دوستی میں اپنایا جائے تو لوگ بڑی تعداد میں بہروپیوں سے بچ سکتے ہیں، انکی خیر خواہی کو اچھا مقام مل سکتا ہے اور سب سے بڑھکر انکی جو دینی تربیت ہو گی تو وہ انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ہوگا ۔
دوستی میں کتنے ہی لوگ ایسے آتے ہیں جو اپنے جبہ و دستار کا حسن و جمال اور نستعلیقیت کی ایسی کٹنگ پیش کرتے ہیں کہ آدمی مبہوت رہ جائے اور دین داری کا ایسا اونچا مظہر پیش کریں گے کہ ایک عام آدمی اپنی ساری دین داری اسکے سامنے ہیچ سمجھنے لگ جائے۔
کچھ تو ایسے بھی آتے ہیں جو خوب چکنی چپڑی بات کریں گے اور ہر مسئلے میں اپنا تزکیہ و تصفیہ کرتے رہیں گے بلکہ جب بھی کسی فن کا ذکر ہو جائے تو اس میں کلام ضرور کریں گے خواہ اس سے انکا کوئی بھی علاقہ نہ ہو، لیکن اپنی شیخی خوری اور اکڑ فوں کی ایسی لت لگی رہتی ہے جو مٹانے سے بھی نہیں مٹتی ہے اور اگر کوئی انکی اس تعلی پر کچھ کہہ دے تو فورا اسی پر حملہ ور ہو جائیں اور اسے زیر کرنے میں کوئی بھی دقیقہ فروگذاشت نہ کریں بالخصوص اگر وہ آدمی کمزور ہو تو اور اگر بائی چانس کسی قوی شخص نے انکی اکڑ بازیوں کا نوٹس لے لیا ہو تو پھر اسی وقت بھیگی بلی بن کر دم دبا کر کسی موڑ پر اس کا گھات لگا کر انتظار کرنا اور ملتے ہی اس کے سامنے اپنی مظلومیت و مقہوریت اور محرومیت کا ایسا افسانہ کھڑا کرنا کہ وہ آدمی ترس کھا کر اس سے ہٹ جائے یا تھوڑی دیر کے لئے اسکے ہی غم میں برابر کا شریک ہو جائے ۔ وغیرہ وغیرہ۔
تو ایسی صورتِ دوستاں میں ہر کسی کا حیراں اور غلطاں و پیچاں رہنا ضروری ہوجاتا ہے ۔
اس حیرانی سے دوری کے لئے ہے بہت ضروری، آدمی کا اپنے ہونے والے دوست کا مکمل ڈاٹا معلوم رہنا ، اس کے واقف کاروں سے معلومات لینا ، اسکی سابقہ زندگی کا کچھ نہ کچھ خلاصہ ہونا تاکہ دوستی میں کسی خلوص کا انویسٹمنٹ سود مند رہے ورنہ بعد میں جب پچھتاوا ہو تو ایسا نہ لگے کہ آدمی کسی کی دوستی کے قرض کا اب تک سود ادا کئے جا رہا ہے۔
ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار انتظار کرنا چاہیئے، اپنا تواضع پیش کرتے رہنا چاہیئے، بے سوچے سمجھے یوں ہی پہل کرکے اپنا پتّا اسکے سامنے نہیں کھولنا چاہیئے تا آنکہ وہ اپنے پتے کھولنا شروع کردے اور ان پتوں میں سے کچھ پتے ایسے ہوں جو اسکی زندگی کا عنوان ہی بتا رہے ہوں ، اسکی کذب بیانی کا جیتا جاگتا ثبوت ہوں ، اسکی لمبی چوڑی نان اسٹاف گفتگؤوں کا اصلی سچ بتا رہے ہوں اور اسکی طبیعت کی حقیقت اور جبلت آشکارا کر رہے ہوں تو ایسی صورت میں جتنی جلدی ہو سکے اس ناسور سے اپنا پیچھا چھڑائیں قبل اسکے کہ آپ اس کی دوستی اور قربت و صحبت سے پہچانے جائیں اور آپ کو لوگ اسکا ہم نشیں و ہم مشرب اور ہم پیالہ و ہم نوالہ سمجھیں ، آپ اپنے ہاتھوں میں اُٹھایا ہوا نوالہ زمین پہ رکھ دیں اور اگر منہ میں ہے تو اسے تھوک دیں ۔
ایسی صورت میں جبکہ آپ کی دوستی کسی کے ساتھ چل پڑی ہے، تو دوست کے احتساب سے زیادہ اپنی دوستی کا احتساب کریں ، اسکے ساتھ تعامل اور تواصل سے آپ میں ہونے والی تبدیلیوں کا بغور جائزہ لیں اور مذکورہ بالا اصول کی روشنی میں یہ دیکھیں کہ مجموعی طور سے آپ اس صحبت کے نتیجے میں اللہ سے کتنا قریب ہو رہے ہیں یا کتنا دور ہو رہے ہیں، آپ کے افکار و خیالات میں کتنی مثبت تبدیلی آ رہی ہے اور کتنا منفی دماغ آپ کو مل رہا ہے ، کس قدر آپ حسن اخلاق والے بن رہے ہیں یا آپ کے اخلاق کا جنازہ تو نہیں نکل رہا ہے۔ الغرض یہ آبزرویشن اور خود احتسابی مجموعی انداز میں ہونی چاہیئے ، یکا دکا واقعات سے کچھ فیصلہ کر لینا کسی عجلت سے کم نہ ہوگا ۔
اور اگر آپ خدانخواستہ کوئی تعلق ختم کر چکے ہوں تو اس کو لیکر کسی قلق میں مبتلا نہ ہوں ، کیونکہ تعلقات کا قلق بسا اوقات انسان کو بری طرح گھایل کر دیتا ہے ، البتہ یہ سوچ اور رویہ اپنے اندر خوب پختہ کر لیں کہ جانے دو کوئی بات نہیں دنیا میں اس سے زیادہ کمینے ، نا ہنجار ، رذیل اور گئے گزرے لوگ ہوتے ہیں تو کیا میں سب کو لیکر دکھی ہوتا رہوں۔
اور اللہ کا شکر ادا کریں کہ اس نے بہت جلد آپ کو ایسی مصیبت سے نجات دلا دیا جو آپ کو آپ کے رب سے دور کرنے کے لئے آپ پر آن پڑی تھی، اب آپ اس سے پاک ہیں۔ الحمد للہ