دنیا باقی ہے تو بس اخلاق کی گرمی اور آداب کے حسن و جمال پر باقی ہے اور کل قیامت کے دن بھی کسی مومن کا پلڑا اسی اخلاق کی بدولت سب سے زیادہ بھاری ہونے والا ہے ، اس جوہر کو اپنے اپنے دین و ایمان اور تعلیم و تربیت کے موافق ہر کوئی کم زیادہ الٹا سیدھا آڑا ترچھا برتتا رہتا ہے اور اپنے ملنے والوں کو مزے چکھاتا رہتا ہے۔
عام طور سے لوگ جب کسی بھی آدمی کی بد اخلاقی کا مزہ چکھتے ہیں تو کچھ اس سے دور ہو جاتے ہیں اور کچھ رد عمل میں اس سے زیادہ بد اخلاق بننے کی کوشش کرتے ہیں اور اس طرح لوگ ایک دوسرے کو سبق سکھاتے رہتے ہیں اور زندگی آگے بڑھتی رہتی ہے ، اس میں کچھ نا کچھ توازن بنا بھی رہتا ہے۔
لیکن جب یہی اخلاق کسی عورت کا بگڑ جائے یا کسی عالم کا بگڑ جائے تو سماج و معاشرے میں ایک بھونچال آتا ہے ، دین و ایمان کے گلیارے کی صدا آتی ہے کہ اس عالم صاحب کو اپنی بد اخلاقی کے ساتھ اس لائن میں آنا ہی نہیں چاہیئے تھا ، اور اگر آئے تھے تو برائے مہربانی کچھ تو پردہ اور لاگ لحاظ رکھنا چاہیئے تھا کہ انکی بد اخلاقی سے لوگ علم سے کیا بلکہ دین سے ہی برگزشہ ہو جاتے ہیں ۔
اس فیلڈ میں جتنا اہم صاف و شفاف کپڑا پہنے ہوئے رہنا ہے اس سے کہیں زیادہ اہم کسی صاف ستھرے نتھرے بلکہ سفید اور اجلے اجلے کرتے کو کسی بھی داغ سے بچائے رہنا ہے اور اسکی سفیدی قائم رکھنا ہے۔
کبھی کبھی زندگی کی مختصر نشست و برخواست کے چلتے یا کچھ خاص ظروف و حالات کے رہتے آدمی بعض اخلاق و آداب سے پوری طرح مزین نہیں ہو پاتا یا انسانی و بشری کمزوریوں کی بنا پر بعض اخلاقی کام نہیں کر پاتا جو بلا شبہہ ایک نقص اور خلا کا مسئلہ ہے لیکن جب ایک عالم یا مولوی اخلاق محمودہ کو اپنانے سے زیادہ اخلاق مذمومہ کا خوگر ہوتا جائے ، اسے جو کرنا چاہیئے تھا اس کو چھوڑ جو نہیں کرنا تھا اس میں زیادہ مقام پیدا کر رہا ہو ، تو یہ صرف ایک نقص اور خلا کا مسئلہ نہیں رہ جاتا بلکہ اس سے ایک بہت بڑی زیادتی اور ظلم و ہلاکت خیزی کا صدور ہوتا ہے جو کئییوں کو اپنے ساتھ بہا لیجاتا ہے، کئییوں کی زندگیاں جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے انسانیت ، اصول ، ضوابط ، موضوعیت ، موزونیت سب کی واٹ لگ جاتی ہے۔
اس لئے کسی بھی اہل علم کو جہاں اخلاق عالیہ سے مزین ہونا ضروری ہے وہیں اس کے لئے اوجب الواجب اور ضروری سے بڑھکر اہم اور ترجیحی بنیاد پر رذائل اور خست وکمینگی اور جملہ تمام بد اخلاقیوں سے دور بہت دور رہنا بھی از حد ضروری ہے، کہ یہی تقاضہ ہے التخلیہ قبل التحلیہ کا اور اس بات کا ثبوت ہیکہ ایکسٹرا سفیدی سے زیادہ اہم داغ سے دوری ہے۔
رسالت مآب ﷺ کہ جن کے وارث ہیں علم والے، جب آپ اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک نماز کے لئے صف کی درستگی کرتے تو فرماتے «ليلني منكم أولوا الأحلام والنهى» یعنی علم و عقل اور فہم و دانش والے لوگ مجھ سے قریب ہو جائیں، تو اس کا معنی و مفہوم سمجھنے والے یہی سمجھتے کہ علماء کو اولو النھی یوں ہی نہیں کہا گیا ہے بلکہ “نھی” کا لفظ جسکا معنی اگر چہ عقل ہوتا ہے لیکن اس سے مراد ایسی عقل والے لوگ ہیں جنکو انکی عقل برائیوں اور سفاہتوں سے دور رکھے ، یہاں پر علماء کا ایسا وصف صرف انکی عقل و دانش کے لئے نہیں لایا گیا ہے کیونکہ اولو الاحلام کی صفت عقل و سنجیدگی کے لئے کافی تھی، اس پر مزید اولو النھی یہ بتاتا ہے کہ علماء کا رذائل سے دور رہنا انکی لازمی اور دائمی صفت ہونی چاہیئے ، اسی جگہ پر حدیث شریف میں ایک اور بات ہے جس سے منع کیا گیا ہے وہ ہے “وإياكم وهيشات الأسواق” اگر واقعی علماء بالخصوص اس مذموم صفت سے پہلو تہی کر لیں تو آج دنیا میں جتنی بے اطمنانی اور کرواسن کا ماحول ہے دینی و علمی حلقوں میں اس کا کئی فیصد سد باب ہو سکتا ہے،
اس لئے جہاں علماء کو ذات ستودہ صفات اور اخلاق و احلام سے مزین رہنا چاہیئے وہیں انکے مقام و مرتبے کو نقصان پہونچانے والی خصلتوں اور برائیوں سے بھی دور رہنا چاہیئے۔