{ ذَ ٰلِكَۖ وَمَن یُعَظِّمۡ شَعَـٰۤىِٕرَ ٱللَّهِ فَإِنَّهَا مِن تَقۡوَى ٱلۡقُلُوبِ }
ترجمہ : یہ سمجھ لو کہ جو اللہ کے مقرر کردہ شعائر اور نشان والی چیزوں کا عزت و احترام کرے تو دراصل یہ اس کے دل کے تقوے کی وجہ ہے.
اللہ کی پناہ……… پاکستانی قوم کا رونا رویا جائے، انکی ہلڑبازی، جہالت اور بے حیائی کا…….. یا اپنے تمام مسلمانوں کی گرتی ہوئی اخلاقی و دینی ساخت اور ادب و آداب کے نکلتے جنازے کا رونا رویا جائے، یا جنوبی ایشیا بلکہ پوری تیسری دنیا کی جنونی سیاست اور سیاسی نعروں وطغروں پر افسوس کیا جائے، یہ سب کچھ ہے افسوس کیلئے ماتم اور سر دیوار سے ٹکرانے کے لئے، لیکن ندامت کے آنسو یا عرق انفعال کا دور دور تک کوئی گزر نہیں، اس طوفان بدتمیزی اور جہالت و ناخواندگی کے تمغے کو لیکر مسجد نبوی جیسی جگہ میں جانے کی کیا ضرورت تھی جہاں سے ہمیشہ علم کی موتیاں بکھرتی رہتی ہیں اور جہاں علم کے لئے گیا شخص مجاہد فی سبیل اللہ کے درجہ میں ہوتا ہے، ان سب باتوں کا احساس کسے ہوگا وہ کہ جنکا ہاتھ دوسروں کے ہاتھوں میں فکری و معاشی، سیاسی و معاشرتی ہر لحاظ سے گروہ رکھا ہوا ہے وہ کہ جنکی سیاست کا لب لباب مغربی جمہوریت کا کباڑا ہے وہ کہ جنکے نونہالان و نوجوانان، پیر و فقیر سب ڈیموکریسی کے پروردہ ہیں، وہ کہ جنکی آنکھوں میں سیاست اہل مغرب کے تھوک کو نگینہ سمجھنے میں یے اور اپنے اقدار و آداب کو ملیا میٹ کرکے دوسروں کا دم چھلا بننے میں، یہ وہ لوگ ہیں جنہیں سیاست و سیادت یورپ اور امریکہ کے بہتے ہوئے گٹر پہ بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہے تو پھر کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ، جب انکے یہاں احتجاج، مظاہرہ، دھرنا، مارچ، نعرہ، ہلڑ، بے حیائی اور دنگا و فساد ہی دین سیاست کے ارکان ہیں تو پھر کہاں سے کسی رجل رشید کا تصور کیا جاسکتا ہے، ان سب بے شرمیوں اور بے حیائیوں کے باوصف مسجد نبوی کہ جہاں اونچی آواز کرنے پر عرش والے نے ڈانٹ پلائی ہے وہاں پر کی گئی نعرے بازی کا دفاع کیا جائے اسکی تاویلیں کی جائیں تو یہ دراصل “عذر گناہ بدتر از گناہ است” والا مقام ہے.
انکے لئے ناموس رسول اکرم ﷺ کی کیا پڑی ہے، ان کو جب حدیث رسول سے کوئی سروکار نہیں تو مسجد رسول کی ہیبت و آب و تاب سے کیا لینا دینا انہیں جب اطاعتِ رسول، گستاخئِ رسول کا پیش خیمہ لگتا ہے تو ایسے لوگوں کو رمضان المبارک کے آخری عشرے کی حرمت سے کیا لینا دینا، انہیں نبی اکرمﷺ کا اتباع کرنے اور آپکی سنتوں کو حرز جاں بنانے سے زیادہ نبی کی گلی کا کتا بننے میں مزہ آتا ہے تو آخر ان سے کتوں سے کم درجے والی حرکتوں کا صدور بھی تو ممکن نہیں ہے لیکن ایسی کتاپنی والی حرکت کو اگر کوئی سرپھرہ عاشق اپنا وطیرہ بنا لے تو معشوق کی حفاظت اور عاشق کی ذہنی حالت کو دیکھتے ہوئے اسے قید خانوں میں رکھنے کی سفارش کی جاتی ہے یا اسے پاگل خانے بھیج دیا جاتا ہے اور ہاتھ نہ آنے کی صورت میں آپ پاس کی گلیوں کوچوں اور بازاروں کے سی سی ٹی وی کے کیمروں کو کھنگال کر جلد از جلد قرار واقعی علاج بھی کیا جاتا ہے،
محبت کی حرمت( جودراصل اطاعت و فرمانبرداری کا لازمی جزء ہے) سے نکل کر عاشقوں جیسی حالت بنانے والے اگر ناکام عاشق ہوتے ہیں تو جلد ہی خود کو برباد کرلیتے ہیں یا کبھی کبھار کچھ جاہل اور عصبی قسم کے عاشق معشوق کے اوپر ایسڈ وغیرہ بھی پھینک دیتے ہیں، الغرض عاشقوں کی اس جماعت سے اپنے معشوق کے لئے کوئی خیر نہیں نکلتا بلکہ یہ اظہار عشق ایک منافقت بن کر رہ جاتی ہے.
مسجد نبوی جیسے اسلامی اور خالص عبادت کے مقام پر ایسی اوچھی حرکتیں کرنے والے واقعی کون لوگ تھے اس میں آپ کسی باہری سازشی تار کو بھی نہیں تلاش کر سکتے بلکہ اپنی ہی تربیت اور غرب کی ذہنی و سیاسی غلامی کو ہی ذمہ دار بنا سکتے ہیں اور ان سب سے اوپر اور بڑھ کر بلکہ سب الأسباب کے طور پہ ہم اپنے نوجوانوں میں دینی تعلیم سے دوری، بدعتی وجاہلی ماحول کو ہی دین سمجھ بیٹھنا اور کتاب و سنت جو دین کا حقیقی سورس ہیں ان سے بے اعتنائی برتنا ہی ہماری تباہی اور اس قسم کی بےہودہ حرکتوں کا حقیقی ذمہ دار ہیں.
واقعی دل بہت غمگین ہے آنکھیں اشک بار ہیں، جہالت کا اس حد تک گزرنا بہت ہی المناک پہلو ہے اور تعجب ہوتا ہے کہ لوگ کیسے اپنی کانٹھ کے الو جیسی سرکار کے لئے سرکار مدینہ کے ہی دربار کو پائمال کرنے سے نہیں چوکتے، کہاں گئی ان کے یہاں کی ناموس رسالت کی نام نہاد غیرت؟؟!!!
اللهم لا تؤاخذنا بما فعل السفهاء منا
عبدالخالق
June 7, 2022 at 8:18 pmبہت بہترین تحریر ہے
اللہ آپ کو مزید توفیق دے آمین