زکات کے مصارف : یعنی وہ جگہیں جہاں پر زکات کا مال خرچ کرنا چاہیئے

زکات کے مصارف

جن آٹھ مصارف میں زکاۃ دینا واجب ہے انہیں اللہ تعالی نے بالکل واضح لفظوں میں بیان فرمایا ہے، اور یہ بھی بتلایا کہ انہی مصارف میں زکاۃ خرچ کرنا واجب ہے، اور یہ علم و حکمت پر مبنی فیصلہ ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: ( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَاِبْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنْ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ )
ترجمہ: صدقات تو صرف فقیروں اور مسکینوں کے لیے اور [زکاۃ جمع کرنے والے]عاملوں کے لیے ہیں اور ان کے لیے جن کے دلوں میں الفت ڈالنی مقصود ہے اور گردنیں چھڑانے میں اور تاوان بھرنے والوں میں اور اللہ کے راستے میں اور مسافر پر (خرچ کرنے کے لیے ہیں)،یہ اللہ کی طرف سے ایک فریضہ ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا، کمال حکمت والا ہے۔ [التوبة:60]

پہلا اور دوسرا مصرف:
فقراء اور مساکین:

فقیر اور مسکین میں فرق یہ ہے کہ : فقیر شخص کو زکاۃ کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ اس کے پاس اپنے اہل خانہ کی ضروریات پوری کرنے کیلئے آدھے سال کا بندو بست بھی نہیں ہوتا، تاہم مساکین کا حال فقراء سے قدرے بہتر ہوتا ہے؛ کیونکہ مساکین کے پاس سال کے آدھے یا زیادہ حصے کیلئے ضروریات پوری کرنے کا بندو بست ہوتا ہے، چنانچہ مساکین کو اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے بقدر حاجت ہی دیا جائے گا۔

تیسرا مصرف:
زکاۃ جمع کرنے والے اہل کار:
یعنی وہ لوگ جنہیں حکومت کی طرف سے زکاۃ جمع کرنے پر مقرر کیا گیا ہے، ان لوگوں کو اپنے کام کی نوعیت کے اعتبار سے تنخواہ دی جائے گی۔

چوتھا مصرف:

جن لوگوں کی تالیف قلبی مقصود ہو:
اس سے وہ لوگ مراد ہیں جنہیں اسلام کے قریب لانے کیلئے کچھ دیا جائے ،چاہے کوئی ایسا غیر مسلم ہو جس کے مسلمان ہونے کا امکان ہو، یا پھر کوئی کمزور ایمان والا مسلمان ہو جسےمال دیکر اسلام پر ثابت قدم رکھا جا سکے، یا پھر کوئی غیر مسلم شریر شخص ہو جسے پیسے دے کر مسلمانوں کو اس کے شر سے محفوظ بنایا جا سکے۔

پانچواں مصرف:
گردن آزاد کروانا:
فرمانِ باری تعالی ہے:( وَفِي الرِّقَابِ )، یہاں تین چیزیں علمائے کرام نے بیان کی ہیں:

1- مکاتَب غلام (جس نے اپنے آقا سے آزادی کیلئےکچھ مال کی مؤجل ادائیگی پر معاہدہ کر لیا ہے)  تو ایسے غلام کو اتنی رقم دی جائے گی جس سے اس کی قیمت ادا ہو جائے۔

2- غلام کو زکاۃ کی رقم سے خرید کر آزاد کر دیا جائے۔

3- کوئی مسلمان کفار کی قید میں ہے، تو کفار کو زکاۃ سے رقم دیکر مسلمان کو آزاد کروا لیا جائے

چھٹا مصرف: مقروض لوگ

قرض اٹھانے والے لوگ یعنی اپنی ضروریات پوری کرنے کیلئے قرض اٹھانے والے آدمی کے سر سے قرض کا بوجھ ہٹانے کیلئے بھی زکات کا مال دیا جا سکتا ہے۔

ساتواں مصرف:

فی سبیل اللہ: اور یہاں “فی سبیل اللہ” سے مراد صرف جہاد ہے، اس کے علاوہ کچھ بھی مراد نہیں ہے، چنانچہ نیکی و بھلائی کے دیگر تمام راستے اس میں شامل کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اگر ایسا ہی حقیقت میں ہوتا تو آیت : ( إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ) [التوبة:60] میں“إنما” کےحصر اور تخصیص کا کوئی فائدہ ہی نہیں رہتا، اس لیے “فی سبیل اللہ” سے مراد صرف جہاد ہے۔

اہل علم کہتے ہیں: “سبیل اللہ” میں یہ بھی شامل ہے کہ جو شخص شرعی علم حاصل کرنے کیلئے مکمل طور پر وقت دے، تو اسے بھی جیب خرچی، کپڑے، کھانا ، پینا، رہائش، اور کتب وغیرہ لے کر دی جا سکتی ہیں؛ کیونکہ علم شرعی بھی جہاد فی سبیل اللہ کی ایک قسم ہے، بلکہ امام احمد رحمہ اللہ کہتے ہیں: “حصول علم کیلئے اگر نیت درست ہو تو اس کے برابر کوئی چیز نہیں ہے” چونکہ علم پوری شریعت کی بنیاد ہے، لہذا علم کے بغیر شریعت کا تصور بھی نہیں ہے، اللہ تعالی نے قرآن مجید اس لیے نازل کیا ہے تا کہ لوگ عدل و انصاف پر قائم رہیں اور شرعی احکام سیکھیں، اسی سے اپنا عقیدہ و قولی و عملی عبادات حاصل کریں، اور یہ سب کچھ اسی وقت ہوگا جب شرعی علم سیکھا اور سکھایا جائے گا،  یہ بات درست ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ اشرف اور معزز ترین عمل ہے، بلکہ اسلام کی کوہان کی چوٹی ہے، اس کی فضیلت میں کوئی شک نہیں، تاہم علم کا بھی اسلام میں بہت بڑا مقام ہے، اس لیےحصول ِعلم کو جہاد فی سبیل اللہ میں شامل کرنا بالکل واضح ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔

آٹھواں مصرف:

ابن سبیل: اس سے مراد مسافر ہے، یعنی ایسا مسافر جس کے پاس زادِ راہ ختم ہو چکا ہے، تو اسے اپنے علاقے تک پہنچنے کیلئے زکاۃ سے امداد دی جائے گی، چاہے یہ شخص اپنے علاقے میں کتنا ہی امیر کیوں نہ ہو، لیکن اسے ابھی امداد کی ضرورت ہے۔


٭ جب ہمیں زکاۃ کے مصارف معلوم ہوگئے تو اس کے علاوہ دیگر مفاد عامہ یا خاصہ کیلئے زکاۃ خرچ کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ مساجد کی تعمیر، سڑکوں کی تعمیر، دفاتر وغیرہ کیلئے زکاۃ صرف کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالی نے زکاۃ کے مستحق مصارف کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: ( فَرِيضَةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ) یعنی یہ زکاۃ کی تقسیم کے مصارف اللہ کی طرف سے فرض ہیں، اور اللہ تعالی علم و حکمت والا ہے۔

٭ سوال یہ ہے کہ کیا ان آٹھ مصارف میں سے ہر ایک کو دینا لازمی ہے؟ کیونکہ “واو” حرف عطف کا استعمال کیا گیا ہے، اور اس کا مطلب ہوتا ہے کہ سب کو بیک وقت حکم میں شامل کیا جائے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ:
ایسا کرنا واجب نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن ارسال کرتے ہوئے فرمایا: (انہیں بتلاؤ کہ اللہ تعالی نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ واجب کی ہے، جو تمہارے مالدار لوگوں سے لیکر غریب لوگوں میں تقسیم کی جائے گی) یہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک ہی صنف بیان کیا، لہذا اس حدیث میں صرف ایک مصرف بیان کرنے سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی نے آیت میں زکاۃ کے مستحقین بیان فرمائے ہیں، نہ کہ یہ کہا ہے کہ سب کو زکاۃ بیک وقت دینا لازمی ہے۔

٭ اگر یہ کہا جائے کہ ان آٹھ مصارف میں سے کس کو زکاۃ دیتے میں ترجیح دینی چاہیے؟

تو ہم کہیں گے: ترجیح اسی کو دی جائے گی جس کو تعاون کی زیادہ ضرورت ہوگی؛ کیونکہ ان تمام مصارف کو زکاۃ دی جا سکتی ہے، اور ان میں سے ترجیح صرف اسی کو ملے گی جسے تعاون کی زیادہ ضرورت ہوگی، چنانچہ عام طور پر زیادہ ضرورت فقراء اور مساکین کو ہوتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے انہی کا ذکر آیت کے شروع میں فرمایا۔

( ملخص از اسلام سوال و جواب)

ہمارے اس چینل کو سبسکرائب SUBSCRIBE کریں!

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*