زکات کے مسائل (اردو) : سونے چاندی کی زکات اور جانوروں کی زکات کا مکمل چارٹ

زکات کے احکام و مسائل

بسم اللہ الرحمن الرحیم

تعارف : اسلام کا ایک اہم رکن زکات ہے، اسی پر اسلام کی بنیاد کھڑی ہے، دین کا تصور زکات کے بغیر نا ممکن ہے،جیسے نماز اسلام کا رکن ہے اور اس کو چھوڑنے والا دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہےہو بہوایسے ہی زکوۃ کا معاملہ ہے، جس کسی نے زکوۃ اور صلاۃ میں فرق کیا تو اس سے جنگ اور قتال کیا جائے گا، قرآن کریم میں بیاسی مرتبہ نماز کے ساتھ زکات ادا کرنے کا تاکیدی حکم موجود ہے۔ اسلام جہاں عبادتوں اور نمازوں وغیرہ کے ذریعہ اللہ سے تعلقات کو استوار رکھنے کا حکم دیتا ہےوہیں اللہ کے بندوں سے تعلق بنانے اور انکی مدد کرنے ، انکے کام آنے اور انکے اوپر خرچ کرنے کا بھی حکم دیتا ہےجو زکوۃ جیسے رکن کو عمل میں لاکر بخوبی انجام دیا جا سکتا ہے،اور یہ اسلام کا وہ ادارہ ہے جو مسلمانوں کے مالی معاملات کو منظّم اور مستحکم رکھتا ہے، بشرطیکہ مسلمان اس نظام کو پوری تنظیم اور ترتیت کے ساتھ عمل میں لائیں ۔

زکات کے فوائد: زکات جہاں بندوں کا حق ہے وہیں یہ اللہ کا بھی حق ہے کہ بندہ اسکی ادائیگی سے اللہ کا قرب حاصل کرتا ہےاور یہ اللہ کی ایک بڑی عظیم بندگی ہے،اس سے انسان کے دنیوی و اخروی تمام فوائد وابستہ ہیں حتی کہ اسکے سماجی و اخلاقی پہلؤوں سے بھی بڑے فائدے ہیں، انسان کے مال کا میل کچیل ، گندگی صاف ہو جاتی ہے ، دل میں موجود مال کی محبت جو انسان کے اندر حرص و لالچ ، بخل و خود غرضی اور سنگ دلی جیسے اخلاق رذیلہ کو جنم دیتی رہتی ہے، اس سے ان سب کا بھی صفایا ہو جاتا ہے اور اسکی طبیعت میں سخاوت و فیاضی، ہمدردی و خیر خواہی کا عنصر پروان چڑھتا ہے۔

آج ہم جس سرمایہ دارانہ نظام معیشت سے گزر رہے ہیں اس میں انسانی قدروں کی بقاء اور بہبود کے لئےزکاۃ و صدقات کے جذبے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔

زکات کی لغوی تعریف: معنی : بڑھنا ، نشو نما پانا ، پاکیزہ ہونا، یہی وجہ ہیکہ زکات دینے والے کا مال بڑھتا ہے، اسکے مال کی اور خود اسکی پاکی و صفائی بھی ہو جاتی ہے۔

اصطلاحی تعریف : اللہ کی عبادت کی خاطر کچھ مخصوص لوگوں کو اپنےایسے مال کا ایک مخصوص حصہ دیناجو نصاب کو پہونچ گیا ہو۔

زکات کی باقاعدہ فرضیت مدینہ میں سن ۲ ہجری کے اندر ہوئی ، حالانکہ ابتدائی طور پے نصاب اور مصارف وغیرہ کی تفصیل کے بغیر مکہ میں ہی فرض قرار دیدیا گیا تھا۔

حکم الزکاۃ: أوجب الواجب ومن أرکان الاسلام وفريضةٌ من الله، مَن جحدها فقد كفر.

پہلی حدیث: حضرت معاذ کو یمن بھیجا گیا یہ فقہاء صحابہ میں سے ہیں ان کو حلال و حرام جاننے والا سب سے بڑا عالم بتایا ہے آپ ﷺ نے۔

٭ جس شہر سے زکات وصول کی جائےاسی شہر والوں پراسے تقسیم کر دیا جائے، یہی انکا اولین حق ہے جبکہ کسی شرعی ضرورت و مصلحت کے تحت دوسرے علاقوں میں زکات منتقل کرنے کو علماء نے جائز قرار دیا ہے ۔

٭ اگر کسی کو اپنے مال میں زکوۃ کی فرضیت کا علم بعد میں ہوا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ اپنے سابقہ سالوں کی زکوۃ کا حساب لگا کر تمام سالوں کی زکات ادا کرے اور تاخیر کے لئے اللہ تعالی سے توبہ و استغفار کرے۔

جانوروں میں زکات

شروط:

۱۔جانوروں کے اوپر حولان حول ( ایک سال کا گزرنا) ہوا ہو۔

۲۔ یہ جانور سائمہ(مویشی) ہوں یعنی انکاگزارہ زمین کی گھاس چرنے پر ہوتا ہو۔

۳۔ ان کا محنت کے کاموں میں بطور آلہ استعمال نہ ہوتا ہو۔

(1) اونٹ کی زکات کا نصاب:

۵ سے کم اونٹوں میں زکات نہیں ہے، الا یہ کہ آدمی اپنی خوشی سے کچھ دیناچاہے

بنت مخاض (دوسرے سال میں داخل اونٹنی)

ابن لبون (تیسرے سال میں داخل اونٹ)

اونٹ کی زکات
5- 24 ؍ اونٹ میں ہر 5 ؍ پر ایک بکری
25 -35 ؍ اونٹ ایک بنت مخاض یا ابن لبون
36 – 45 ؍ اونٹ بنت لبون
46 – 60 ؍ اونٹ ایک حِقّہ( تین سالہ اونٹنی)
61 – 75 ؍ اونٹ ایک جِذعہ(چار سالہ اونٹنی)
76 – 90 ؍اونٹ 2؍ بنت لبون
91 – 120 ؍ اونٹ 2 ؍ حِقّہ

ایک سو بیس سے اوپر ہر 40 پر

ایک بنت لبون
120 سے اوپر ہر 50 ؍ پر ایک حِقّہ

(2) گائے اور بیل کی زکات کا نصاب:

گائے کی زکات
30 – 39 ایک سالہ بچھڑا/ بچھیا (تبیع/ تبیعہ)
40 – 59 دو سالہ بچھیا ( مسنۃ)
اس کے بعد ہر 30 میں ایک تبیع اور ہر 40 میں ایک مسنہ

(3) بکریوں کی زکات کا نصاب:

40 سے کم بکریاں ہیں تو ان پہ زکات نہیں ہے۔

بکریوں کی زکات
40 سے 120 تک ایک بکری
120 سے 200 تک دو بکریاں
200 سے 300 تک تین بکریاں
پھر اس کے بعد ہر 100 پر ایک بکری زکات ہوگی

سونے اور چاندی کی زکات:

ان دونوں چیزوں کی زکات اسی وقت ہوگی جب ان پر حولان حول(ایک سال کا گزر) ہو گیا ہو ۔

چاندی جب دو سو درہم کو پہونچے تو اس میں پانچ درہم زکات ہوگی (چالیس حصوں میں سے ایک حصہ= ڈھائی فیصد)

دو سو درہم چاندی کا وزن موجودہ دور میں تقریبا ساڑھے باون (52.5) تولہ ہوگا،یعنی 735 گرام۔

سونا جب بیس دینار کو پہونچے تو اس میں نصف دینار زکات ہوگی (چالیس حصوں میں سے ایک حصہ= ڈھائی فیصد)

بیس دینار سونا موجودہ دور میں تقریبا ساڑھے سات (7.5) تولہ یا ایک سو پانچ(105) گرام کا ہوگا۔ اس میں صرف ڈھائی فیصد ہی زکات میں دینا ہے۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*