سجدہ سہو کے بعض احکامات
حافظ فواد اسلم المحمدی المدنی
استاد / الجامعۃ المحمدیۃ منصورہ، مالیگاؤں
سُجودٌ : سجَد یسجُد کا مصدر ہے ، اسکا معنی ہوتا ہے سجدہ کرنا، یہ ایک عظیم عبادت ہے جس کو اللہ کے علاوہ کسی اور کےلئے کرنا جائز نہیں ہے، یہ سجدہ ایک اہم عبادت بلکہ اسلام کے اہم رکن رکین نماز کا اٹوٹ حصہ ہے جس کے بغیر کوئی نماز صحیح نہیں ہو سکتی ہے اوراسی طرح سے جب نماز رسول اللہ ﷺ کے طریقہ سنت کے مطابق نہ ہو تب بھی صحیح نہیں ہو سکتی ہے اسی وجہ سے ہمارے لئے لازم ہو جاتا ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اپنی نماز کو ہمیشہ پڑھیں، تاکہ ایک مسلمان کی نماز میں اجر و ثواب کی کوئی کمی نہ رہ جائے اور وہ تمام قسم کی غلطیوں، کوتاہیوں اور بھول چوک کی نادانیوں اور سہو و تساہل سے پاک رہے ، یہی چیز نماز کی روح یعنی خشوع و خضوع پیدا کرنے والی سب سے اہم اور کارگر بات ہے، اب اگر نماز میں کسی آدمی سے کوئی غلطی، خطاء اور نسیان یا سھو ہو جائے تو ہمیں اس کا تدارک کیسے کرنا چاہیئے، وہ کون سی چیز ہے جس سے اس خلل کی بھر پائی ہو سکتی ہو.؟ اس کا علم بہت سے لوگوں کو نہیں ہوتا ہے حتی کی بعض ائمہ مساجد بھی بسا اوقات ان مسائل سے ناواقف نظر آتے ہیں، شاید اس سے بہت کم دوچار ہونے کی وجہ سے، لیکن ایک طالب علم کو ان مسائل سے ہمیشہ واقف رہنا چاہیئے۔
تعریف : نماز میں نمازی کو کسی سھو کی وجہ سے آنے والے خلل ( کمی ، زیادتی اور شک ) کی بھرپائی کرنے کے لئے جو دو سجدے کئے جاتے ہیں انہیں سجود السھو کہتے ہیں ۔
سجدہ سہو کن مقامات پر مشروع ہی نہیں ہے؟
(٭1نماز میں جان بوجھ کر غلطی کرنے یعنی نماز کے کسی واجب یا رکن کو یوں ہی چھوڑ دینے سے سجدہ سہو نہیں کرنا ہے بلکہ ایسی صورت میں پوری نماز ہی باطل ہو جاتی ہے، جہاں اسکا اعادہ ضروری ہوجاتا ہے، ٭ 2: ایسے ہی “عمل کثیر” کے مرتکب شخص کی نماز ایک حالت میں باطل تو ہو سکتی ہے لیکن اس پر کوئی سجدہ سہو نہیں ہوگا، کیونکہ اس کا عمل من جنس الصلاۃ نہیں ہے، ٭تیسری جگہ جہاں سجدہ سہو نہیں ہے وہ حدیث النفس یعنی جب انسان اپنے من میں کچھ سوچ رہا ہو تو اسکے اس عمل پر سجدہ سہو نہیں ہے، ٭چوتھی جگہ ہے صلاۃ الجنازہ جہاں پر سجدہ سہو مشروع نہیں ہے، کیونکہ جب صلب صلاۃ میں سجدہ نہیں تو جبر صلاۃ میں بھی سجدہ نہیں ہوگا. )
حکم : یہ سجدہ واجب ہے۔ سوائے چند امور میں جہاں اسے مستحب قرار دیا گیا ہے، آگے ان کا ذکر آ رہا ہے.
نوٹ : جب سجدہ سہو کا کوئی بھی سبب پایا جائے تو اس وقت سجدہ کرنا مشروع ہوگا، چاہے نفلی نماز ہو یا فرض، نماز کے نفل یا فرض ہونے سے سجدہ کے وجوب پر کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کیونکہ خلل خلل ہوتا ہے خواہ فرض میں ہو یا نفل میں.
حکمت : یہ شریعت اسلامیہ کی خوبی ہے کہ اس میں ہر مسئلہ کا حل موجود ہے اور یہ اللہ کی بڑی رحمت اور نعمت والی بات ہے کہ اس نے ہمارے لئے سجدہ سہو مشروع قرار دیا ،تاکہ ہم اپنی نمازوں میں ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کا تدارک کر سکیں اور اس پر ہمیں پوری تسلی اور اطمئنان بھی حاصل ہو جائے اور آئندہ اپنے اندر وسواس کو پنپنے سے بچا سکیں، اسکا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آدمی کی نماز کھلواڑ بننے سے بچ جاتی ہےکہ ابھی اگر ادھر ادھر دھیان بھٹکے گا تو نماز کے آخر میں سجدہ سہو کے طور پہ تاوان اور جبر ادا کرنا ہوگا۔
یہی وجہ ہیکہ اللہ کے رسول ﷺ سے بھول ہوئی تاکہ اس بھول کی وجہ سے آپ ہمارے لئے سجود السہو کے قوانین بنا سکیں، موطأ کی ایک روایت میں ارشاد فرمایا ((إني لأنسى أو أُنسّى لأسُنّ)) ترجمہ : میں بھولتا ہوں یا بھلا دیا جاتا ہوں تاکہ اس معاملہ میں سنت کا طریقہ بنا سکوں۔
طریقہ : یہ دونوں سجدے ایسے ہی کئے جائیں گے جیسے عام نماز کے لئے دو سجدے کئے جاتے ہیں ، سجدوں کی ہیئت میں بھی کوئی فرق نہیں ہوگا بلکہ سجدہ سہو میں دعائیں بھی وہی پڑھی جائیں گی جو عام سجدوں میں پڑھی جاتی ہیں مثلا : سبحان ربی الاعلی یا سجدوں کی دیگر ماثور دعائیں بھی پڑھ سکتے ہیں، اسکے بعد دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھ کر وہی دعا پڑھی جائے جو نماز کے سجدوں کے مابین پڑھی جاتی ہے ـ اللهم اغفر لی وارحمنی وغیرہ ، پھر اطمئنان سے بیٹھنے کے بعد دوسرے سجدے میں جائیں اور وہی کچھ کریں جو پہلے سجدے میں کر چکے ہیں ۔
٭دونوں سجدوں کے بعد تشھد ہے یا نہیں ؟ تو اگر قبل السلام سجدہ ہواہے تو تشہد کی ضرورت ہی نہیں ہے ، لیکن اگر بعد السلام سجدہ ہوا ہےتو کچھ حدیثوں کی بنیاد پر علماء نے اس تشہد کو اختیاری بتایا ہےلیکن ان روایتوں کی سندی حالت مضبوط نہ ہونے کی وجہ سےتشہد نہ کرنا ہی بہتر ہے۔
٭ سجدوں کے بعد جب ایک اور تشھد پڑھناثابت نہیں ہے تو اب سجدہ سہو کے فورا بعد سلام پھیردینا واجب ہوجاتا ہے، خواہ سجدے قبل السلام ہوئے ہوں یا بعد السلام۔
سجدہ سہو کے اسباب : سجدہ سہو کے تین اسباب ہیں
(۱)جب مصلی نے نماز میں کسی عمل کا اضافہ کر دیا ہواور وہ عمل من جنس الصلاۃ ہو
(۲) جب مصلی نے نماز کے کسی عمل میں کمی کر دیا ہو۔
(۳) جب مصلی کو نماز کے اعمال میں سے کسی عمل کے اندر کمی یا زیادتی کا شک پیدا ہو جائے۔
اس بحث میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سجدہ سہو کب سلام سے پہلے ہوگا اور کب سلام کے بعد ؟ ذیل میں اسی جواب کی طرف رہنمائی ہے ( تفصیل کے لئے دیکھئے: رسالة في سجود السهو لابن عثيمين.
بعض اوقات سجدہ سہو سلام سے پہلے کرنا ہو تا ہے اور بعض اوقات سلام پھیرنے کے بعد کرنا ہو تا ہے، اہل علم کے اس سلسلہ میں مختلف اقوال ہیں ، تمام روایتوں کو جمع کرنے کے بعدایسا واضح ہوتا ہے کہ سلام سے پہلے سجدہ کرنے کے دو مقام ہیں :
1۔ جب دوران نماز کسی قسم کی کمی ہو جائے تو سجودِ سہو سلام سے پہلے ہوں گے تاکہ دوران نماز ہی اس کمی کی تلافی ہو جائے۔
2۔ جب دورانِ نماز تعداد رکعات کے متعلق شک پڑ جائے اور کوشش کے باوجود کسی جانب کا فیصلہ نہ ہو سکے پھر یقین پر بنیاد رکھتے ہوئے اگر نماز کو مکمل کیا جائے تو اس میں بھی سلام سے پہلے سجدہ سہو کیے جائیں۔
سلام کے بعد سجدہ سہو کرنے کے بھی دو مقام ہیں :
1۔ اگر دوران نماز کسی عمل کا اضافہ ہو جائے مثلاً ظہر کی چار رکعت کے بجائے پانچ پڑھ لیا ہو تو سلام کے بعد دو سجدے کیے جائیں پھر دوبارہ سلام پھیرا جائے۔
2۔ اگر دوران نماز تعداد رکعا ت کے متعلق شک پڑ جائے تو پھر کوشش و تحری سے ایک جانب رجحان ہو جائے تو اس صورت میں بھی سلام کے بعد ہی سجدہ سہو کرنا ہو گا۔
(اگر دوران نماز دو سہو اس طرح ہو جائیں کہ ایک سہو کا تقاضا سلام سے پہلے سجدہ سہو کرنے کا ہو جبکہ دوسرے کا تقاضا سلام کے بعد سجدہ سہو کرنے کا ہو تو سلام سے پہلے ہی دو سجدے کر لیے جائیں پھر سلام پھیرا جائے, ایسی اختلافی صورت میں قبل السلام ہی سجدہ کر لینا زیادہ مناسب ہے۔ واللہ اعلم)
قبل السلام سجدے کو مناسب کہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ امام زہری ( مشہور تابعی ) کا کہنا ہیکہ کان آخر الامرین السجود قبل السلام۔
وصلی اللہ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ وسلم