شیطان کے وسوسے کے لحاظ سے دلوں کی تین قسمیں ہیں :
1. ایسا دل جو ایمان، ذکر واذکار اور خیر کے تمام خیالات سے عاری ہو تو ایسے دل کے لئے شیطان کو کچھ کرنا نہیں پڑتا ہے، بلکہ ایسا دل شیطان کی آرام گاہ بن کر رہ جاتا ہے.
2. ایسا دل جو ایمان کی روشنی سے منور بھی رہتا ہے لیکن کبھی کبھار اس میں ھوائے نفس اور شہوات کا گزر بھی ہو جاتا ہے، تو ایسے ہی دلوں پر شیطان کا آنا جانا زیادہ ہوتا ہے اور یہیں پر بندے کی جنگ شیطان سے چلتی رہتی ہے.
3. تیسرا وہ دل جو ایمان و ایقان، توحید و محبت اور ذکر و اذکار سے بھرا ہوا ہو اور اسکے اندر کی ایمانی کرنیں اتنی اسٹرانگ ہوں کہ انکے سامنے شہوت کا کوئی بھی سایہ ٹک نہ سکے اور جب بھی ایسے دلوں میں وسوسہ ڈالا جائے تو اسکی یہ روشنی اس وسوسے کو جلا کر خاک کر دے، یہ دل اتنا عظیم اور محترم ہوتا ہے کہ اللہ کے نزدیک اسکی نگرانی آسمانوں سے بھی زیادہ سخت انداز میں کی جاتی ہے کہ جیسے کوئی شیطان اس سے قریب ہو تو اسے شہاب ثاقب کے شعلے جلا کر راکھ کر دیں.
اب ایک عقلمند آدمی اپنے دل کی کتنی نگہداشت کرتا ہے اور ان میں سے کون سے نمبر کا دل اسکے اندر دھڑک رہا ہے، اسے یہ ضرور دیکھنا چاہیئے.
علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اسے تین گھروں والی مثال سے واضح کیا ہے :
1. بادشاہ کا گھر، اسکے زر و جواہرات اور اس پر اسکی مضبوط سیکورٹی.
2. ایسا گھر جو خالی اور خراب ہو جس میں کچھ نہ ہو.
3. تیسرا وہ گھر جو کسی عام بندے کا گھر ہے جس میں اسکی جمع پونجی، کچھ زیورات اور تھوڑے بہت پیسے، اور ایک لکڑی کا ردوازہ، نہ اس کے پاس بادشاہ جیسا قیمتی سامان ہے اور نہ اس جیسی سیکورٹی.
اب آپ بتائیے کہ جب چور آئے گا تو ان میں سے کس گھر پہ ہاتھ صاف کرے گا، بالکل اسی تیسرے گھر پہ ٹوٹ پڑے گا اور اسے لوٹنے کی کوشش کرے گا.
مذکرہ بالا صورتوں سے یہ واضح ہو گیا کہ اللہ نے ہمیں ذکر و اذکار اور معرفتِ الہی اور خشیتِ رب کی ایسی سیکورٹی فراہم کی ہے جس سے ہم اپنے دلوں کے بادشاہ ہو سکتے ہیں.
دیکھئے : الوابل الصیب لابن قيم الجوزية