کھانے پینے کے آداب
الحمد للہ: قال الله تعالى : كُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ .…. شریعتِ اسلامیہ میں کھانے پینے کے آداب مختلف اقسام میں ہیں:
اول: کھانے سے پہلے کے آداب:
- کھانے سے پہلےدونوں ہاتھوں کو دھونا چاہئے، تا کہ دونوں ہاتھ کھانے کے دوران صاف ستھرے ہوں، کہیں پہلے سے موجود ہاتھوں پر میل کچیل کی وجہ سے نقصان نہ ہو۔
- ۔ میزبان کی طرف سے جب کھانا پیش کردیا جائے تو جلدی سے کھانا شروع کردیں، اس لئے کہ مہمان کی عزت افزائی اسی میں ہے کہ جلدی سے اسکے لئے کھانا پیش کردیا جائے، اور میزبان کے سخی ہونے کی علامت ہے کہ وہ جلدی سے کھانے کو قبول کرے، اس لئے کہ اُن کے ہاں اگر کوئی مہمان کھانا نہ کھائے تو اسکے بارے برا گمان کرتے تھے، چنانچہ مہمان پر لازمی ہے کہ وہ میزبان کے دل کو جلدی سے کھانا شروع کرتے ہوئے مطمئن کردے۔
- کھانے سے قبل بسم اللہ پڑھنا: کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھنا واجب ہے، اور بسم اللہ سے مراد کھانے کی ابتدا میں صرف “بسم اللہ” ہی ہے، چنانچہ ام کلثوم عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اللہ کا نام لے، اور اگر اللہ تعالی کا نام لینا ابتدا میں بھول جائے تو کہے: “بِسْمِ اللَّهِ أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ“اول و آخر اللہ کے نام سے ) ۔ اسی طرح عمر بن ابو سلمہ سے روایت ہے کہ میں جب چھوٹا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں بیٹھا تھااور میرا ہاتھ پوری تھالی میں گھوم رہا تھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (لڑکے! اللہ کا نام لو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور جو تمہارے سامنے ہے اس میں سے کھاؤ) بخاری ( 3576 ) ومسلم ( 2022 )
دوم: کھانے کے دوران کے آداب:
(1) دائیں ہاتھ سے کھانا: مسلمان پر دائیں ہاتھ سے کھانا واجب ہے، بائیں ہاتھ سے کھانا منع ہے، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(تم میں سے کوئی بھی بائیں ہاتھ سے نہ کھائےپیئے، اس لئے کہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور پیتا ہے) مسلم ( 2020 )
یہ اس شکل میں ہے جب کوئی عذر نہ ہو، لہذا اگر کوئی عذر ہو جسکی وجہ سے دائیں ہاتھ سے کھانا پینا ممکن نہ ہو، جیسے بیماری، یا زخم وغیرہ ہے تو بائیں ہاتھ سے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔
نیز اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ انسان اُن تمام کاموں سے پرہیز کرے جو شیطانی کاموں سے مشابہت رکھتے ہوں۔
(2)اپنے سامنے موجود کھانے میں سے کھانا:انسان کیلئے مسنون ہے کہ اپنے سامنے موجود کھانے میں سے کھائے، اور دوسروں کے سامنے سے ہاتھ بڑھا کر نہ اٹھائے، اور نہ ہی کھانے کے درمیان میں سے، اس لئے کہ رسول اللہ ﷺنے عمر بن ابو سلمہ سے فرمایا تھا: (لڑکے! اللہ کا نام لو، اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اور جو تمہارے سامنے ہے اس میں سے کھاؤ”۔ ویسے بھی کھانے کے دوران اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے افراد کے سامنے سے کھانا کھانا بری عادت ہے، اور مُروَّت کے خلاف ہے، اور اگر سالن وغیرہ ہوتو ساتھ بیٹھنے والا زیادہ کوفت محسوس کریگا، اسکی دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: “برکت کھانے کے درمیان میں نازل ہوتی ہے، اس لئے کھانے کے کنارے سے کھاؤ درمیان سے مت کھاؤ“
لیکن اگر کھانے کی اشیاء کھجوریں اور دیگر اسی قسم کی دوسری اشیاء ہوں تو علماء کے نزدیک تھالی وغیرہ سے ہاتھ کے ذریعے مختلف کھانے کی اشیاء لی جاسکتی ہیں۔
(3)کھانے کے بعد ہاتھ دھونا: کھانے کے بعد صرف پانی سے ہاتھ دھونے پر سنت ادا ہو جائے گی .کھانے سے پہلے اور بعد میں ہاتھ دھونا مستحب ہے چاہے انسان باوضو ہی کیوں نہ ہو۔
(4)کھانے کے بعد کلی کرنا: کھانے سے فراغت کے بعد کلی کرنا مستحب ہے، جیسے کہ بشیر بن یسار سوید بن نعمان سے بیان کرتے ہیں کہ وہ صہباء نامی جگہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے -جو خیبر سے کچھ فاصلے پر ہے- تو نماز کا وقت ہوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے کیلئے کچھ طلب کیا، لیکن سوائے ستو کے کچھ نہ ملا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی کھا لیا، ہم نے بھی ستو کھایا، پھر آپ نے پانی منگوایا اور کلی کی، اور پھر دوبارہ وضو کئے بغیر نماز پڑھی اور ہم نے بھی نماز ادا کی ۔( بخاری :5390(
(5)میزبان کیلئے دعا: اس کے بارے میں انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن عبادہ کی طرف آئے تو انہوں نے آپ کیلئے روٹی اور زیتون کا تیل پیش کیا، آپ نے وہ تناول فرمایا اور پھر دعا دی: ” أَفْطَرَ عِنْدَكُمْ الصَّائِمُونَ ، وَأَكَلَ طَعَامَكُمْ الْأَبْرَارُ ، وَصَلَّتْ عَلَيْكُمْ الْمَلائِكَةُ “ تمہارے پاس روزہ دار افطاری کرتے رہیں، اور تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں، اور فرشتے تمہارئے لئے رحمت کی دعائیں کریں۔ ابو داود (3854) نے اسے روایت کیا ہے اور البانی نے ” صحيح سنن ابو داود ” ( 3263 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
(6) تین انگلیوں سے کھانا کھانا: سنت یہ ہے کہ تین انگلیوں سے کھانا کھایا جائے، قاضی عیاض کہتےہیں: تین سے زیادہ انگلیاں کھانے کیلئے استعمال کرنا بری عادت ہے، اور ویسے بھی لقمہ پکڑنے کیلئے تین اطراف سے پکڑنا کافی ہے، اور اگر کھانے کی نوعیت ایسی ہو کہ تین سے زیادہ انگلیاں استعمال کرنی پڑیں تو چوتھی اور پانچویں انگلی بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ دیکھیں: ” فتح الباری )9 / 578 (
انگلیوں کا استعمال تو اسی وقت ہوگا جب ہاتھ سے کھائے، اور اگر چمچ کا استعمال کرے تو کوئی حرج نہیں ہے، (7) گرے ہوئے لقمے کو کھانا: اگر کھانا کھاتے ہوئے لقمہ گر جائے تو لقمہ اٹھا کر اس پر لگی ہوئی مٹی وغیرہ صاف کرکے اسے کھا لے اور شیطان کیلئے مت چھوڑے، کیونکہ یہ کسی کو نہیں پتہ کہ برکت کھانے کے کس حصے میں ہے، اس لئے یہ ممکن ہے کہ اسی لقمے میں برکت ہو جو گر گیا تھا، چنانچہ اگر لقمے کو چھوڑ دیا تو ہوسکتا ہے کہ اس سے کھانے کی برکت چلی جائے، اسکی دلیل انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی کھانا کھاتے تو اپنی تینوں انگلیوں کو چاٹتے، اور آپ نے ایک بار فرمایا: (اگر تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اس سے صاف کرکے کھا لے، شیطان کیلئے اسے مت چھوڑے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ پلیٹ کو انگلی سے چاٹ لیں، اور فرمایا: (تمہیں نہیں معلوم کہ کھانے کے کس حصے میں برکت ہے) مسلم (2034) (8) کھانا کھاتے ہوئے ٹیک مت لگائے: اسکی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (میں ٹیک لگا کر نہیں کھاتا) بخاری (5399)، (9)کھانا کھاتے ہوئے بلا ضرورت نہ تھوکے۔(10)یہ بھی کھانے کے آداب میں شامل ہے کہ : • سب مل کر کھانا کھائیں • کھانے کے دوران اچھی گفتگو کریں • چھوٹے بچوں اور بیویوں کو اپنے ہاتھ سے کھلائیں • اپنے لئے کوئی کھانا خاص نہ کرے، ہاں اگر کوئی عذر ہوتو کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ دوا کے طور پر، بلکہ بوٹی، نرم گرم روٹی وغیرہ دوسروں کو پیش کرکے اُنہیں اپنے آپ پر ترجیح دے • مہمان کھانے سے ہاتھ ہٹانے لگے تو میزبان کے کہنے پر دوبارہ کھانا شروع کردے یہاں تک کہ اچھی طرح سیر ہوجائے، اور تین بار سے زیادہ ایسے نہ کرے
• دانتوں میں جو کھانا پھنس جائے اسے تنکے وغیرہ سے نکال دے، اور پھر اسے تھوک دے نِگلے مت۔
سوم: آداب برائے بعد از فراغت: کھانے سے فراغت کے بعد الحمد للہ، اور دعا پڑھنا مسنون ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے سے فارغ ہوتے او دستر خوان اٹھا لیا جاتا تو فرماتے: • (الْحَمْدُ لِلَّهِ حَمْدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ غَيْرَ مَكْفِيٍّ وَلا مُوَدَّعٍ وَلا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا) • نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دودھ کے علاوہ کچھ لیتے تو فرماتے: ” اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ ، وَأَطْعِمْنَا خَيْرًا مِنْهُ “ • اور جب آپ دودھ نوش فرماتے تو کہتے: ” اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِيهِ ، وَزِدْنَا مِنْهُ “
چہارم: کھانےکے عمومی آداب: 1- کھانے کے عیب نہ نکالے جائیں، چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی کھانے کے عیب نہیں نکالے، اگر اچھا لگا تو کھا لیا، اور پسند نہ آیا تو آپ چھوڑ دیتے تھے۔ بخاری ( 3370 ) اورمسلم ( 2046 ) یہاں کھانے سے مراد ایسا کھانا ہے جسکو کھانا جائز ہے، جبکہ حرام کھانے کے بارے میں اسکی مذمت فرماتے، اور اس سے روکتے بھی تھے۔ امام نووی کہتے ہیں: “کھانے کے آداب میں سے ضروری یہ ہے کہ کھانے کے بارے میں یہ نہ کہاجائے: “نمک زیادہ ہے”، “کھٹا ہے”، ” نمک کم ہے”، “گھاڑا ہے”، “پتلا ہے”، “کچا ہے”، وغیرہ وغیرہ۔
2- میانہ روی سے کھانا کھانا اور مکمل طور پر پیٹ نہ بھرنا بھی کھانے کے آداب میں شامل ہے، اس کے لئے ایک مسلمان کو اپنے پیٹ کے تین حصے کرنے چاہئیں، ایک تہائی کھانے کیلئے، ایک تہائی پانی کیلئے اور ایک تہائی سانس لینے کیلئے، جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے: “کسی انسان نے اپنے پیٹ سے بُرا برتن کبھی نہیں بھرا ابن آدم کے لیے چند نوالے کافی ہیں جو اس کی کمر سیدھی رکھیں اور اگر زیادہ کھانا ضروری ہو تو ایک تہائی پیٹ کھانے کے لیے، ایک تہائی پینے کے لیے اورایک تہائی سانس کے لیے مختص کر دے” ترمذی ( 2380 ) ابن ماجہ ( 3349 ) البانی نے اسے صحيح ترمذی ( 1939 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
جسم کو ہلکا پھلکا اور معتدل رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے، کیونکہ زیادہ کھانے سے بدن بھاری ہوجاتا ہے، جس سے عبادت اور کام کرنے میں سستی آتی ہے، اور “تہائی ” سے کھانے کی وہ مقدار مراد ہے جس سے انسان مکمل پیٹ بھر لے اسکا تیسرا حصہ ۔
3- کھانے پینے کیلئے سونے اور چاندی کے برتن استعمال نہ کرے ، کیونکہ یہ حرام ہے، اسکی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: (موٹی اور باریک ریشم مت پہنو، اور نہ ہی سونے چاندی کے برتنوں میں پئو، اور نہ ہی اسکی بنی ہوئی پلیٹوں میں کھاؤ، اس لئے یہ کفار کیلئے دنیا میں ہیں اور ہمارے لئے آخرت میں ہیں۔) متفق علیہ(
4- کھانے سے فراغت کے بعد اللہ کی تعریف کرنا : اسکی بہت بڑی فضیلت ہے، چنانچہ انس بن مالک سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بے شک اللہ تعالی اپنے بندے سے راضی ہوتا ہے جب وہ ایک لقمہ کھائے تو اللہ کی تعریف کرے، یا پانی کا گھونٹ بھی پئے تو اللہ کی تعریف کرے” مسلم (2734) ۔۔اس کیلئے متعدد الفاظ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں
ماخوذاز کتاب : “الآداب” مؤلف : شہلوب ۔ )ص: 155(
جمع و ترتیب : فواد اسلم المدنی۔(۲۲/ جنوری ۲۰۱۹)