زنا کی تباہ کاریاں
حافظ فؤاد أسلم المدنی
زنا ایک نہایت قبیح فعل اور بہت بڑا فساد ہے ۔ اس کے اثرات بھی بہت بڑے ہیں اور اس سے بہت سے نقصانات جنم لیتے ہیں ۔ یہ اثرات مرتکب زنا پر ہوں یا امت پر ۔ اس کے ساتھ ساتھ زنا کی کثرت اور اس کی طرف دعوت دینے کا سامان بھی بہت زیادہ ہے ۔
زنا کے آثار ، مفاسد ، آفات اور نقصانات درج ذیل ہیں :
1 زنا ہر قسم کے شر کو اکٹھا کرنے کا موجب ہوتا ہے ، جس میں سے قلت دین ، خشیت الٰہی کا مفقود ہو جانا ، مروت ختم ہو جانا ، غیرت کا کم ہو جانا ، اور عزت و شرف کا دفن ہو جانا ۔
2 زنا حیا کا قاتل ہے ، اس سے زانی کے چہرے پر بے حیائی و بے شرمی کا پردہ پڑ جاتا ہے ۔
3 زنا سے چہرے کی سیاہی و ظلمت میں اضافہ ہوتا ہے اور زانی بغض و عناد کی ایسی بلندی پر پہنچ جاتا ہے کہ دیکھنے والے کو بھی نظر آتا ہے ۔
4 دل کی دنیا اندھیری ہو جاتی ہے اور اس کا نور بجھ جاتا ہے ۔
5 فقر زانی کی زندگی کا لازمی جزو بن جاتا ہے ۔ حدیث قدسی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” کہ میں سرکشوں کو ہلاک اور زانیوں کو فقیر کر دیتا ہوں ۔ “
6 مرتکب زنا کی حرمت ختم ہو جاتی ہے ، اللہ اور بندوں کی نظر میں گر جاتا ہے ۔ زانی سے نیکی ، پاکبازی اور عدل کا نام سلب کر لیا جاتا ہے اور فاسق ، قاصر ، زانی اور خائن کا نام دے دیا جاتا ہے ۔
7 زانی کے دل میں اللہ تعالیٰ وحشت ڈال دیتا ہے اور وہ وحشت کی ایسی مثال بن جاتا ہے کہ وہ اس کے چہرے پر چھا جاتی ہے ۔ اس کے برعکس پاکدامن کے چہرے پر حلاوت اور دل میں انس ہوتا ہے ، جو بھی اس کے ساتھ بیٹھے اس سے مانوس ہو جاتا ہے ،
8 زانی کو لوگ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں اور کوئی بھی شخص اس کی اور اس کی اولاد کی عزت و حرمت کی گارنٹی نہیں دیتا ۔
9 زنا کا نقصان یہ بھی ہے کہ زانی کے جسم سے گندی قسم کی بو آتی ہے ۔ جسے ہر قلب سلیم والا سونگھ لیتا ہے جو اس کے جسم سے آ رہی ہوتی ہے ۔
10 دل کی تنگی و پریشانی میں مبتلا ہونا ۔ بے شک زانیوں کے ساتھ ان کے ارادہ و قصد کے برعکس معاملہ کیا جائےگا ، جو بھی بندہ جس نے دنیاوی لذت اور اس کی خوشیوں کا حصول معصیت الٰہی میں کیا تو اللہ اسے اسکے قصد و ارادہ کے الٹ انجام سے دوچار کرے گا ۔ کیونکہ اللہ کے پاس جو ( جنت کی لذات ) ہے اس کو بغیر اطاعت الٰہی کے حاصل نہیں کیا جا سکتا ، اور اللہ تعالیٰ کبھی بھی اپنی نافرمانی کو ذریعہ خیر نہیں بناتا ، اور اگر قاصر جان لے کہ عفت و پاکدامنی میں کیسی لذت و سرور ، انشراح صدر اور زندگی کی خوشی ہے ، تو وہ دیکھے گا کہ اس نے کئی گنا زیادہ ( حقیقی ) لذت کو عارضی حاصل شدہ لذت سے فوت کردیا ۔
11 زانی اپنے آپ کو جنات عدن میں پاکیزہ گھروں میں رہنے والی حورالعین سے فائدہ اٹھانے سے محروم کر لیتا ہے ۔
12 زنا انسان کو قطع رحمی ، والدین کی نافرمانی ، حرام کمائی ، مخلوق پر ظلم اور اہل و عیال کو ضائع کرنے پر جری و بہادر بنا دیتا ہے ۔ کبھی حرام طریقے سے خون بہانے کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور کبھی علم یا بغیر علم جادو اور شرک کی طرف جانے میں اس کا معاون و مددگار ہوتا ہے ۔ اور یہ نافرمانی گناہوں کی کئی اقسام کو پہلے یا بعد میں لائے بغیر مکمل نہیں ہوتی ہے اور بعد میں کئی گناہوں کو جنم دیتی ہے ، یہی برائی پہلے اور بعد میں گناہوں کے لشکر لے کر آتی ہے ۔ اور یہی برائی دنیا و آخرت کے شر کو لاتی ہے اور دنیا و آخرت کی بھلائی سے روکتی ہے ۔
13 زنا سے لڑکی کی عزت جاتی رہتی ہے اور عیب کی چادر اسے لپیٹ لیتی ہے ، اسی پر بس نہیں بلکہ یہ ذلت اسکے خاندان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے اور جب یہ بے شرمی اس کے اہل ، خاوند ، اور رشتہ داروں پر داخل ہوتی ہے تو لوگوں کے سامنے ان کے سروں کو جھکا کر رکھ دیتی ہے ۔
14 زنا کے الزام کا عیب کفر کے الزام کے عیب سے زیادہ دیر باقی رہنے والا ہے ، کیونکہ کفر کا الزام سچا ہونے پر اگر وہ سچی توبہ کرے تو اس توبہ سے کفر کی گندگی شرعی طور پر دور ہو جاتی ہے ، اس کا عیب صاف ہو جاتا ہے ، لوگوں کے دلوں میں اس کے متعلق کوئی بات نہیں رہتی ، تو وہ ایسے لوگوں کی مانند ہو جاتا ہے جیسے وہ اسلام پر ( یعنی مسلمان کے گھر ) ہی پیدا ہوا ہے ۔ جبکہ زنا کی صورتحال اس کے الٹ ہے کہ وہ اس برائی کے ارتکاب سے توبہ کرے ، یا اگر اسے پاک کر دیا جائے اور قیامت کے دن کا مواخذہ مؤخر کر دیا جائے تو بھی لوگوں کے دلوں میں اس کا اثر باقی رہتا ہے ، ان لوگوں کے مقابلہ میں اس کی عزت و توقیر میں کمی آ جاتی ہے جو شروع سے ہی عفت و پاکدامنی میں پلے بڑھے ہوں ۔
آپ ذرا اس عورت کو دیکھئے کہ جس کی زنا کی طرف نسبت ہو لوگ اس کی توبہ ظاہر ہونے کے باوجود بھی اس کے ساتھ شادی کرنے سے اجتناب کرتے ہیں ، اس کے گلے میں لٹکی ہوئی عزت فروشی کی پرچی کو دیکھ کر ، جبکہ مشرکہ عورت سے نکاح میں رغبت رکھتے ہیں جب وہ اسلام لے آئے ، تو اس کے اسلام لانے کی وجہ سے وہ اس سے نکاح میں راغب ہوتے ہیں ۔
15 زنا سے حاملہ ہونے والی عورت اگر اپنے بچے کو قتل کر دے تو اس نے قتل اور زنا کو جمع کردیا ، اگر اسے اپنے خاوند کے پاس لے کر جاتی ہے تو اپنے سسرال اور میکے پر ایسے اجنبی کو داخل کرتی ہے جو ان میں سے نہیں ہے ، اسے انکی وراثت میں شامل کرتی ہے ، ان کے ساتھ اور انہیں میں سے اسے دیکھتی اور شمار کرتی ہے انہی کا نسب ان کو دیتی ہے اور وہ ان میں سے نہیں ہے ۔ اسکے علاوہ اس زانیہ کے زنا کی اور بھی خرابیاں ہیں ۔
16 زنا سے بچے پر ظلم ہے ۔ کیونکہ زانی اپنا نطفہ ایسی جگہ تخم ریز کرتا ہے کہ جس سے پیدا ہونے والی جان آباءو اجداد کے نسب سے کٹی ہوئی ہوتی ہے اور نسب باہم تعاون اور ایک دوسرے کے دست و بازو بننے کے روابط کی طرف بلاتا ہے ۔ پس زنا بچے کی ذات کے لیے ہمدردی و نرمی جو اسے ادنیٰ سے بھی قربت دے دے اس سے دوری کا سبب بنتا ہے کہ جب وہ پھسلے تو کوئی اس کا بازو ہی پکڑے یا ضرورت کے وقت اس کے کندھے سے کندھا ملا کر اس کو تقویت دے ۔ اسی طرح اس پر ظلم اور اس کی عزت نفس مجروح کرتا ہے ۔
ہر جانب سے دھتکارا ہوا لوگوں میں بے قیمت زندگی گزارتا ہے ، لوگ بھی ولدالزنا کو کوئی اہمیت نہیں دیتے ، طبیعتیں بھی اس کا انکار کرتی ہیں اور معاشرے میں کوئی بھی اسے اعتبار دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا جبکہ اس مسکین کا کیا گناہ ہے ۔ اور کوئی بھی صاحب دل اس سارے معاملے کو برداشت کرنے اور اس کا سبب تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتا ۔
17 آدمی کے زنا کرنے سے عورت کی حفاظت میں خرابی پیدا ہوتی ہے اور فساد و بربادی کو انگیخت ملتی ہے ۔
18 زنا دشمنیاں پیدا کرتا ہے اور زانی مرد و عورت کے خاندانوں میں انتقام کی آگ بھڑکاتا ہے ۔ کیونکہ یہ غیرت کی وجہ سے ہوتا ہے جو رشتہ داروں کے متعلق انسان کی طبیعت میں ہوتی ہے اور جب غیرت کو روندا جاتا ہے تو اس کا دل جوش غیرت سے بھر جاتا ہے پھر یہ قتل و غارت اور لڑائیوں کے پھوٹنے کا سبب بن جاتا ہے ۔
کیونکہ عورت کی ہتک عزت کا عیب اور رسوائی خاوند اور رشتہ داروں کو اس طرف کھینچتی ہے ۔ اگر کسی آدمی کو یہ خبر ملے کہ اس کی عورت یا کسی رشتہ دار کو قتل کر دیا گیا ہے یہ سننا آسان ہے اس خبر سے کہ اس کی بیوی نے زنا کیا ہے ۔ سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر میں کسی آدمی کو اپنی بیوی کے ساتھ دیکھوں تو اسے قتل کر دوں گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ بات پہنچی تو فرمایا کیا تم سعد کی غیرت پر تعجب کرتے ہو ، اللہ کی قسم ! میں اس سے زیادہ غیرت مند ہوں اور اللہ مجھ سے زیادہ باغیرت ہے ۔ اور اسی غیرت کی بنا پر اللہ ظاہری و باطنی برائیوں کو حرام قرار دیا ہے ۔ ( بخاری و مسلم )
19 زنا سے زانی کے رشتہ داروں پر اثر پڑتا ہے ۔ اس برے فعل کی وجہ سے اس کی ہیبت ان سے چلی جاتی ہے جس کی وجہ سے ان پر اپنی عزت فروشی آسان ہو جاتی ہے اگر سچی دینی تربیت سے ان کی چادر عفت کو رنگا نہ گیا ہو ۔ بخلاف اس کے جو زنا سے انکاری ہو ، اس سے اجتناب کرتا ہو اور اس کے علاوہ کسی اور بات پر راضی نہ ہو تو اس کے یہ سیرت اس کی رشتہ داروں کے دلوں میں رعب ڈال دیتی ہے اور اس کی یہ خوبی اس کے گھر کو پاک و صاف اور طاہر رکھنے کی ممد و معاون ہوتی ہے ۔
20 زنا سے صحت پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ، جن کا علاج اور کنٹرول کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔ بلکہ کبھی تو زانی کو زندگی میں ایڈز ، سیلان ، زہری اور اس جیسی دوسری جنسی بیماریوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔
21 زنا امت کی تباہی کا سبب ہے ۔ اپنی مخلوق کے متعلق اللہ کی یہ جاری شدہ سنت ہے کہ زنا کے عام ہونے پر اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور اس کا غضب شدید ہو جاتا ہے ، اس غضب کے بدلے زمین پر اس کا عذاب لازمی ہو جاتا ہے ۔
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ، جب کسی بستی میں زنا عام ہو جاتا ہے تو اللہ اس کی تباہی کا حکم دے دیتے ہیں ۔
22 زنا کے بہت بڑا معاملہ ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام حدود میں سے زنا کی حد کو زنا کے بڑا معاملہ ہونے کی بنا پر خاص کیا ہے ۔ ابن قیم کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے حد زنا کو باقی حدود کے درمیان تین خصائص کی بنا پر خاص کیا ہے ۔
اول : زنا کی وجہ سے قتل کرنا قتل کی بدترین شکلوں میں سے ہے ۔
ثانی : اللہ سبحانہ نے اپنے بندوں کو زانیوں کے معاملہ میں ان کے دین میں نرمی برتنے سے منع کر دیا ہے ۔ کیونکہ یہ نرمی ان کو ان پر حد قائم کرنے سے روکے گی ۔ پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ان زانیوں کے ساتھ یہ نرمی ہے کہ اس نے ان پر اس سزا کو مشروع قرار دیا ہے ۔ وہ اللہ تم سے بڑھ کر ان کے ساتھ رحم کرنے والا ہے ، اور اس کی رحمت اس کو اس معاملہ میں سزا دینے سے نہیں روکتی تو پھر تمہارے دلوں میں پیدا ہونے والی ہمدردی تم کو اللہ کا حکم نافذ کرنے میں مانع نہیں ہونی چاہئیے ۔ اگرچہ ساری حدود کی تنفیذ میں ایسا ہی ہونا چاہئیے لیکن حد زنا کے متعلق خاص طور پر شدت سے اس کو بیان کیا ہے ۔ کیونکہ لوگ زانی کے متعلق اپنے دلوں میں وہ سختی یا نفرت محسوس نہیں کرتے جو دوسرے مجرموں چور ، بہتان باز اور شرابی کے بارے محسوس کرتے ہیں ۔ ان کے دلوں میں زانی کے لیے رحم کا جذبہ زیادہ ہوتا ہے بہ نسبت دوسرے جرائم کے سرغنہ لوگوں کے ، اور واقعات اس بات پر گواہ ہیں ۔ علامہ ابن القیم آگے مزید فرماتے ہیں کہ : ” پس ان کو منع کر دیا کہ ان ( زانیوں ) کے متعلق تمہارے دلوں میں کوئی نرمی پیدا ہو جو تمہیں حدوداللہ کو معطل کرنے پر ابھارے ۔ “
اور اس رحمت کا سبب یہ ہے کہ یہ گناہ اعلیٰ ، متوسط اور نچلے درجے کے لوگوں سے سرزد ہوتا ہے ۔ کیونکہ لوگوں کے دلوں میں زنا اور اس میں واقع ہونے کا داعیہ بہت مضبوط ہوتا ہے اور اس کے اسباب میں سے اکثر سبب عشق ہے اور عاشق کی ہمدردی کے لیے دل مائل ہوتا ہے ۔ اور لوگوں کی کثیر تعداد اس ( زنا ) کو طاعت و قربت کی بنا پر باہم تعاون شمار کرتے ہیں ۔ ( نعوذ باللہ من ذلک )
عشق معشوقی جو کہ حرام ہے اور یہ حیوان صفت لوگوں میں کثرت سے پائی جاتی ہے ۔ زنا کے متعلق ناقص العقل لوگوں کے واقعات کثرت سے ہمیں بتائے گئے ہیں جیسے گھروں میں خادم اور عورتیں وغیرہ ۔
اور یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ یہ گناہ جانبین کی باہم رضا مندی کے بغیر وقوع پذیر نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں ظلم و زیادتی ہوتی ہے کہ جس سے لوگوں میں نفرت پیدا ہو ، زنا میں شہوت کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے تو عاشق اس کے لیے معشوق کو تصور میں لاتا ہے ( جو بعد میں اس برائی کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے ) اسی بنا پر لوگوں کے دلوں میں نرمی پیدا ہوتی ہے جو انہیں حد قائم کرنے سے روکتی ہے اور یہ سب ضعف ایمان کی نشانیاں ہیں ۔
کمال ایمان یہ ہے کہ آپ پوری قوت کے ساتھ اللہ کے حکم کو قائم کریں اور اس ( زانی ) پر اس کی رحمت کا نفاذ کریں جسے اللہ تعالیٰ اس پر کرنا چاہتا ہے ۔ تو پھر یہ حد اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے حکم کے موافق ہوجائےگی ۔
ثالث : اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ حد کی تنفیذ لوگوں کی موجودگی میں ہونی چاہئیے نہ کہ کسی ایسی الگ جگہ پر جہاں ان دونوں کو دیکھنے والا کوئی نہ ہو ۔ یہ حد کی مصلحت اور زجر و توبیخ کی مکمل ترین شکل ہے ۔
اس معاملہ میں کچھ عمدہ تنبیہات :
1 زنا کی برائی اپنے مفاسد کے اعتبار سے مختلف ہوتی ہے ۔ لہذا زانی یا زانیہ کا ہر کسی سے زنا کرنا زیادہ سخت ہے بہ نسبت آپس میں کر لینے سے۔
2 علی الاعلان زنا کا ارتکاب کرنے والا اس کا یہ فعل چھپ کر زنا کرنے والے سے زیادہ سخت ہے ۔
3 خاوند والی عورت سے زنا کرنا بغیر خاوند کے ساتھ زنا سے زیادہ سخت ہے ۔ کیونکہ اس خاوند پر ظلم و زیادتی ہے اور اس کے بستر کو خراب کرتا ہے اور یہ عمل مجرد زنا سے زیادہ سخت ہے ۔
4 پڑوسی کی بیوی سے زنا کرنا دور گھر والے کی بیوی کے ساتھ زنا سے زیادہ سخت ہے ۔ کیونکہ ایک تو یہ پڑوسی کو اذیت دینے میں شمار ہو گا اور دوسرا اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کی پابندی نہ کرنے میں آتا ہے ۔
5 اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ کرنے والے مجاہد کی بیوی سے زنا اس کے علاوہ کی بیوی کے ساتھ زنا سے زیادہ سخت ہے ، اس لیے غازی کو کہا جائے گا ( خذ من حسنات الزانی ماشئت ) کہ زانی کی نیکیوں میں سے جو چاہے لے لو ۔
6 اس طرح محرمات سے زنا کرنا بدبختی و قباحت میں بڑا جرم اور واضح ہلاکت ہے ۔
7 جس کے ساتھ زنا کیا گیا ہے اس کے اعتبار سے بھی گناہ کے مختلف درجات ہوتے ہیں ۔
8 زمان و مکان اور احوال کے اعتبار سے بھی اس کے مختلف درجے ہوتے ہیں ، رمضان کے کسی دن یا رات میں زنا کرنا اس کے علاوہ زنا سے گناہ میں بڑا ہے ، اس طرح فضل و شرف کی جگہوں میں زنا کرنا ان کے علاوہ میں زنا سے بڑا جرم ہے ۔
9 شادی شدہ سے زنا غیر شادی کے زنا سے زیادہ قبیح ہے ۔ 10 بوڑھے کا زنا کرنا نوجوان کے زنا سے زیادہ قبیح ہے ۔
11 عالم کا زنا کرنا جاہل کے زنا سے زیادہ قبیح ہے ۔ 12 زنا سے دور رہنے کی قدرت رکھنے والا اس کا زنا عاجز فقیر کے زنا سے زیادہ قبیح ہے ۔
اور کبھی اس برائی کے ساتھ عشق بھی شامل ہوتا ہے جس کی وجہ سے معشوق کے ساتھ دل کا مشغول ہونا لازمی ہوتا ہے ۔ اس کی توقیر و تعظیم کرنا ، انکساری و عاجزی کا مظاہرہ کرنا ، اور فرماں برداری اور حکم کی بجا آوری کو اللہ کی اطاعت اور حکم کی تعمیل پر مقدم کرنا ، اس کے دشمنوں سے دشمنی رکھنا ، اس کے دوستوں سے دوستی رکھنا یہ سب چیزیں ان کا نقصان اور مفاسد صرف زنا کے مرتکب ہونے سے بڑھ کر ہوتے ہیں ۔
زنا سے توبہ کا طریقہ : زنا جیسے جرم عظیم کی وضاحت اور فرد و معاشرہ پر اس کے بدترین اثرات کی وضاحت کے بعد زنا سے لازمی توبہ کے حوالے سے عمدہ تنبیہات پیش خدمت ہیں ۔
ہر وہ مرد و عورت جس نے زنا کیا ہو یا اس کا سبب بنا ہو یا اس کے لیے معاونت کی ہو کہ وہ پکی توبہ کے لیے جلدی کرے ، اپنے ماضی پر نادم ہو اور موقع ملنے پر بھی دوبارہ اس کی طرف نہ آئے ۔ زنا میں مبتلا آدمی کیلئے ضروری نہیں کہ وہ اپنی صفائی پیش کرے یا اپنے جرم کا اعتراف کرے بلکہ اس کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے رب سے توبہ کرے اور اللہ نے اس کا جو راز رکھا ہے اسے راز ہی رہنے دے ۔
اگر اس کے پاس اس ( عورت ) کی تصویریں ہیں جس سے اس نے یہ گناہ کیا ہے یا کوئی آڈیو یا ویڈیو ہے تو فوری طور پر اس سے خلاصی حاصل کرے ، یا اگر اس نے یہ تصاویر اور کیسٹ کسی دوسرے شخص کو دی ہے تو اس سے فوراً واپس لے یا کسی اور طریقے سے ان سے پیچھا چھڑائے ۔
اگر کوئی عورت جس کی تصویر یا ریکارڈنگ وغیرہ کی گئی ہے اور اسے اپنے معاملے کا راز فاش ہونے کا ڈر ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی توبہ میں جلدی کرے اور یہ بات اسے اپنے رب کی طرف متوجہ ہونے میں آڑے نہیں آنی چاہئیے ، بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ توبہ کرے اور کوئی دھمکی یا خوف قبول نہ کرے ۔ بے شک اللہ تعالیٰ اس کا ولی ہے اور کافی ہے ۔ یہ بات بھی اس کے علم میں ہونی چاہئیے کہ اسے دھمکانے والا بزدل و بے ہمت ہے اور عنقریب وہ اپنے پاس موجود چیزوں کو فاش کرنے سے خود بھی ذلیل و رسو اہوگا ۔ اور قیامت کے دن لوگوں کے سامنے ہونے والی رسوائی جس کے بعد آگ میں دخول اور برا ٹھکانہ ہے ۔
اس مسئلہ میں سب سے فائدہ مند بات یہ ہے کہ اگر وہ عورت اپنے معاملے کے سرعام آنے سے خائف ہے تو اسے اپنے رشتہ داروں میں سے کسی سمجھ دار شخص کا تعاون حاصل کرنا چاہئیے تا کہ وہ اسے اس دلدل سے نکالنے میں معاون ہو جس میں یہ پھنس چکی ہے ، کبھی یہ حل فائدہ مند اور خوشگوار ہوتا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ کوئی بھی اگر اس جرم میں واقع ہو چکا ہے تو اسے توبہ کی طرف جلدی کرنی چاہئیے اور مکمل طور پر اپنے رب کی طرف متوجہ ہو جائے اور ان تمام چیزوں سے قطع تعلقی کر لینی چاہئیے جو اسے اس فعل قبیح کی یاد دلائے ، اور اللہ کی طرف انکساری و عاجزی کے ساتھ متوجہ ہو ۔ قریب ہے کہ اللہ اس کی توبہ قبول کرے اور اس کے گناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے ۔
اللہ پاک کا فرمان ہے : وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا (69) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا (70)
” اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو معبود نہیں ٹھہراتے ، اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالیٰ نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے اور نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت و بال لائے گا ۔ اسے قیامت کے دن دوہرا عذاب دیا جائے گا اور ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ اسی میں رہے گا ۔ سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان لائیں اور نیک کام کریں ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں میں بدل دیتا ہے ۔ “( الفرقان : 68-70 )
كتبه:
العبد الفقير فؤاد أسلم المدني (14/اپریل ۲۰۱۹)
الجامعة المحمدية منصورة مالیگاوں