نیا سال منانا اور مسلمانوں کا کچھ نا سوچنا

نیا سال منانا اور کچھ دیر سوچنا

دیگر اقوام کی طرح ہم بھی اصل کام چھوڑ کر چڑھتے سورج کی پوجا میں لگے رہتے ہیں، جہاں پل پل منافقت کا دور دورہ ہے، جو چیزیں ایک حقیقت کی طرح ماننے کی ہوتی ہیں ہم انہیں بس منا رہے ہیں وہ بھی کسی کی دیکھا دیکھی، عقل سے پیدل مغربی اقوام کی نقالی میں بے جامہ و بے خیمہ ہوئے جا رہے ہیں.

دنیا میں مختلف قوموں اور تہذیبوں کے پاس الگ الگ کلینڈر اور الگ الگ جنتریاں پائی جاتی ہیں، لوگ انکی ایجاد کرتے تھے اپنے ماہ و سال کا حساب رکھنے کے لئے، انتظامی امور میں دن تاریخ کا حساب مینٹن کرنے کے لئے کہ اسی سے تو علم تاریخ جڑی ہے جو انسانی زندگی کے ساتھ ابتداء سے لگی ہوئی ہے، جس پر قرآن پاک اور علم حدیث کا فن جا بجا ابھارتا رہتا ہے، اور اسی علم تاریخ سے ہی کتنی قوموں کے جھوٹ، اعاء اور فریب سے پردہ اٹھا ہے اور انکی چوری پکڑی گئی ہے، اسی علم کی بدولت دنیا میں مسلمان تاریخ دانی میں وہ مقام حاصل کر سکے جسکے لئے دنیا ہمیشہ انکی مقروض رہے گی، چاہے علم العمرانیات ہو یا فلسفۂ تاریخ یا پھر علم الاسناد جیسا مہتم بالشان علم ہو یا اسماء الرجال جیسا خالص محدثانہ کارنامہ، الغرض ان سب کے پیچھے اسلام کی تاریخ کے تئیں وہ حساسیت اور بے داری تھی جس نے دنیا کو ایسے بے نظیر تاریخی فنون سے واقف کرایا کہ جس کی ماضی میں مثال ملنا مشکل ہے، لیکن افسوس صد افسوس آج جو قومیں ان علوم و فنون کے چکر لگاتی ہیں اور انکی خوشہ چینی کرکے تاریخ بناتی اور دنیا میں اپنی تاریخ پھیلاتی ہیں انہی قوموں کے پیچھے گھوم گھوم کر اور چکر لگا لگا کر ہم چکرا کے گر رہے ہیں اور کبھی کبھی بےہوش بھی ہو جاتے ہیں لیکن ہوش کے ناخن نہیں لے پاتے ، بلکہ آج جب ایک قوم کے کلینڈر کا نیا سال شروع ہوا ہے تب بھی ہم انہی کی بولی بولنے بیگانے کی شادی میں عبد اللہ دیوانے کا کردار ادا کرنے چل پڑے ہیں، حیف صد حیف، ایسے ہی انہزامیت اور شکست خوردگی کے موقعے پہ یاد آتا ہے کہ جب پیغمبر اسلام علیہ الصلاۃ والسلام مدینہ منورہ پہونچے اور وہاں اسلامی تہذیب و تمدن کی داغ بیل ڈالی اور اسلامی سماج و معاشرے کے جملہ اداروں کو ترتیب دیا مسجد بنائی، صفہ بنایا، فوج و لشکر بنایا تو دیکھا کہ یہاں لوگ فارسی اور مجوسی تہذیب سے متاثر ہوکر سال میں دو تہوار مناتے ہیں ایک نو روز کے دن تو دوسرا مہرجان یا مہرگان کے دن، اسی وقت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : (قد أبدلكم الله بهما خيرًا منهما: يوم الأضحى ويوم الفطر) اللہ نے تمہیں ان دونوں دنوں سے زیادہ بہتر دو دن عطا کر دیا ہے اور وہ عید الفطر اور عید الاضحٰی کے دن ہیں، لہذا اگر منانا ہے تو ہمیں عید الفطر اور عید الاضحٰی منانا چاہیئے، آج کس قدر ہم اسی موڑ پر پہونچ گئے ہیں جہاں اسلام سے قبل عرب جاہلیت پہونچی ہوئی تھی، فارسیوں اور مجوسیوں کا نیا سال منایا جا رہا تھا اور آج ہمارے یہاں نصرانیوں والا نیا سال منایا جا رہا ہے، یہ منانے کی پرمپرا کتنی بےتکی چیز ہے جو ہر چیز کو اسکی اصل ماہیت سے ہٹا کر اسے فقط منانے تک محدود کر دیتی ہے، جیسا کہ اوپر گزرچکا کہ یہ کلینڈر اور ماہ و سال لوگوں کے لئے جہاں ایک طرف ٹائم مینجمنٹ اور پلاننگ کا مناسب حساب رکھنے کے لئے ہوا کرتے ہیں تو وہیں ان سے ماضی کی تاریخ کا حساب رکھا جاتا ہے اور یہ محاسبہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا، لیکن ہم شکست خوردہ لوگ کھو کر بھی کبھی کچھ سوچنے والے نہیں ہیں کیونکہ ابھی دماغ پہ جس تقلید کی موٹی پرت جمی ہوئی ہے اسے ہٹنے میں کئی سال لگیں گے اور آنے والے کئی نئے سال اسی موٹی پرت کے ساتھ منائے جائیں گے،. إلا ماشاء الله

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا

کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

فؤاد أسلم المحمدي المدني

جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں

یکم جنوری 2022

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*