قربانی کے احکام و مسائل
حافظ فؤاد اسلم المحمدی المدنی
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
الحمدللّٰہ والصلاۃ والسلام علی رسول اللّٰہ وعلی آلہ وصحبہ وعلی من تبعھم بإحسان إلی یوم الدین أمابعد!
فقد قال اللّٰہ تعالی : { قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ}[الأنعام : ۱۶۲]
محترم اسلامی بھائیو اور بہنو! اللہ رب العالمین نے دنیا کی تمام قوموں میں قربانی کی عبادت کو جاری رکھا اور اسی طرح سے موجودہ دور میں جو ادیان دنیا میں موجود ہیں ان میں بھی قربانی کا کوئی نہ کوئی تصور ضرور موجود ہے ، اللہ تعالی کا ارشاد ہے { وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَی مَا رَزَقَہُم مِّن بَہِیْمَۃِ الْأَنْعَامِ }[الحج : ۳۴] ترجمہ : ’’ اور ہر امت کیلئے ہم نے قربانی کے طریقے مقرر فرمائے ہیں تاکہ وہ ان چوپائے جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ نے انہیں دے رکھے ہیں ـ‘‘ قربانی کا یہ موسم بہار مسلمانوں کیلئے جہاں عید کا سماں لیکر آتا ہے وہیں اس عید قرباں پر اس لازوال قربانی کی یاد بھی تازہ ہوتی ہے کہ جسے اللہ ر ب العالمین نے رہتی دنیا تک اہلِ توحید کیلئے ایک مہمیز بنا دیا ہے اور وہ کہانی ہے حضرت امام الموحدین ابو الانبیاء ابراہیم خلیل اللہ علیہ وعلی نبینا أفضل الصلاۃ والتسلیم کی کہ جن کی پوری زندگی قربانیوں سے عبارت ہے اور آپ نے اپنے اہل و عیال کے ساتھ توحید کیلئے جو جانفشانیاں اور محازآرائیاں برداشت کی ہیں اور ہمیشہ صبر و شکیب اور حلم و بردباری کا ثبوت دیتے رہے وہ سب آج مومنوں کیلئے ایک ان مٹ نقوش کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ لہذا جب جب یہ قربانی کی عید آتی ہے تو سیدنا ابراہیم خلیل اللہ کی قربانی بھری زندگی مسلمانوں کے سامنے آجاتی ہے اور انھیں گرماتی ہے ، تڑپاتی ہے۔ تو اس سے انکے اعمال کی اسپرٹ اور بڑھ جاتی ہے ۔
قربانی کی اصل اللہ رب العالمین نے بتاتے ہوئے فرمایا : { وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ (107) وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِیْ الْآخِرِیْنَ (108) سَلَامٌ عَلَی إِبْرَاہِیْمَ (109) }[الصافات] یعنی ہم نے اسماعیل کے فدیے میں ایک بڑا عظیم ذبیحہ دیدیا اور انکا نام اور ذکر ِ خیر پچھلوں میں باقی بھی رکھا ۔ قربانی ہی دراصل اللہ کی فرمانبرداری اور سچی توحید کی دلیل ہے جیسا کہ ربِ کریم نے اپنے کلام پاک میں ارشاد فرمایا : { إِنَّا أَعْطَیْنَاکَ الْکَوْثَر (1)فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ (2)}[ سورۃ الکوثر] ترجمہ : ’’یقینا ہم نے تجھے حوض کوثر اور بہت کچھ عطا کیا لہذا تو اپنے رب کیلئے نماز پڑھا کر اور قربانی کیا کر ‘‘۔ اور ایک دوسری جگہ فرمایا کہ تمہارے جانوروں کا خون اور گوشت اللہ پاک کو نہیں پہونچتا ہے ، بلکہ اس قربانی سے تو تمہارا صرف تقوی ہی اللہ کو پہونچتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : { لَن یَنَالَ اللَّہَ لُحُومُہَا وَلَا دِمَاؤُہَا وَلَکِن یَنَالُہُ التَّقْوَی مِنکُمْ }[ الحج: ۳۷] اور یہی قربانی اسلام کے ایسے بڑے شعائر میں سے ہے کہ جس سے اسلام کی پہچان ہوتی ہے ۔ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے : { وَمَن یُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّہِ فَإِنَّہَا مِن تَقْوَی الْقُلُوبِ }[ الحج :۳۲] اور اسی آیت کے بارے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس شعائر سے مراد قربانی کے جانور ہیں ، اور ہم اسی وجہ سے اپنے جانوروں کو پال کر موٹا، فربہ اور خوبصورت کیا کرتے تھے، تمام مسلمانوں کا یہی دستور تھا۔ ( صحیح البخاری)
قربانی کا حکم: تو اس سلسلے میں کچھ علماء نے واجب کی بات کہی ہے جن میں شیخ الاسلام امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللہ بھی ہیں ۔ لیکن دلائل کے قریب جمہور علماء کا قول ہیکہ قربانی کی عبادت سنت موکدہ ہے ، لہذا احتیاط کی بات یہی ہیکہ قربانی کی استطاعت اور طاقت رکھنے کے باوجود کوئی آدمی اسے ہرگز نہ چھوڑے کیونکہ اس عظیم عبادت کی تعظٰیم کا یہی تقاضہ ہے ۔
برادرانِ اسلام ! قربانی کیلئے اچھے سے اچھا جانور منتخب کرنا چاہیئے جو کہ تمام شرعی عیوب سے پاک ہو جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہےکہ چار قسم کے عیب دار جانور قربانی میں جائز نہیں: کانا جانور جس کا بھینگا پن ظاہر ہو اور وہ بیمار جانور جس کی بیماری کھلی ہوئی ہو اور وہ لنگڑا جس کا لنگڑا پن ظاہر ہو اور وہ دبلا پتلا مریل جانور جو گودے کے بغیر کا ہوگیا ہو۔ (احمد و اہل السنن) اسے امام ترمذی صحیح کہتے ہیں۔ یہ عیوب وہ ہیں جن سے جانور گھٹ جاتا ہے۔ اوردوسری بات یہ کہ جانور بھیمۃ الأنعام میں سے ہونا چاہیئے ، بھیمۃ الأنعام میں اونٹ، گائے اور بکری کا شمار ہوتا ہے اور اسی طرح سے بکریوں کا دانتا ہونا بھی ضروری ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موٹی تازی اور عمدہ قربانی کو آپ ﷺپسند کرتے تھے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے التلخیص الحبیر میں یہ مرفوع حدیث نقل کی ہے:’’ أَحَبُّ الضَّحَا یا إِلَي اللّٰہ أَعْلَاھَا وَأَسْمَنُھَا ‘‘یعنی اللہ کوسب سے زیادہ محبوب قربانی موٹی تازہ اور بلند قامت یا عمدہ قسم کی ہے۔.اور اسی طرح سے مناسب یہ ہیکہ آدمی خود اپنے ہاتھوں سے قربانی کرے اور جو آدمی قربانی کی نیت رکھتا ہو تو اسے چاہیئے کہ وہ ذی الحجہ داخل ہوتے ہی اپنے بال اور ناخن کو چھوڑ دے جیسا کہ صحیح مسلم میں آپ ﷺ نے فرمایا ہیکہ : ’’إذا رأیتم ھلال ذی الحجۃ وأراد أحدکم أن یضحی فلیمسک عن شعرہ وأظفارہ ‘‘۔اور ذبح کا عمل دن و رات کسی بھی وقت کیا جاسکتا ہے بس ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیئے کہ ایام تشریق ختم ہونے سے پہلے ہم قربانی سے فارغ ہوجائیں ، یعنی قربانی کا وقت ہوتا ہے عید الأضحی کی نماز سے فارغ ہونے سے لیکر پورا ایام تشریق ، اور جیسے ہی تیرہ تاریخ کا سورج غروب ہوگا قربانی کا وقت ختم ہو جائیگا ۔ لہذا ہمیں تیرہ ذی الحجہ کی مغرب سے پہلے پہلے اپنی قربانی کر لینی چاہیئے ۔
قربانی میں اشتراک:
متعدد حضرات اگر مشترکہ طور پر قربانی دینا چاہیں تو یہ جائز ہے اور متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے لیکن یہ مسئلہ کسی قدر تشریح طلب ہے۔ گائے اور اونٹ کے متعلق تو صریح احادیث سے ثابت ہے کہ متعدد اشخاص کی طرف سے قربانی دی جا سکتی ہے۔ ایک گائے میں سات شامل ہو سکتے ہیں اور اسی طرح اونٹ میں بھی۔ لیکن بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اونٹ میں دس شامل ہو سکتے ہیں۔ امام ترمذیؒ نے اونٹ کے متعلق دونوں حدیثیں ذکر کی ہیں۔ لیکن صحیح یہی ہے کہ گائے اور اونٹ میں سات سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں اور یہی مسلک جمہور محدثین کا ہے، امام ترمذی نے بھی یہی لکھا ہے کہ صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کا بالعموم اور ائمہ دین مثلاً سفیان الثوریؒ، ابن المبارکؒ شافعیؒ، احمدؒ اور اسحاقؒ کا اسی پر عمل رہا اور اسی کی تائید مسلم شریف کی روایات سے ہوتی ہے۔
بکری کی قربانی میں ایک سے زائد شریک ہو سکتے ہیں یا ایک سے زیادہ کی طرف سے بکری کی قربانی دی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس مسئلہ میں حنفیہ اور محدثین کا اختلاف ہے۔ بہر حال اس مسئلہ میں صحیح اور مطابقِ حدیث نبوی اور تعاملِ صحابہ کے یہی ہے کہ ایک بکری کی قربانی تمام گھر والوں کی طرف سے کافی ہے سو وہ چاہے کتنے ہی ہوں۔
اخیر میں اللہ رب العالمین سے دعا ہیکہ مولی ہمیں اس عظیم عبادت کے عمل میں اخلاص اور للاہیت کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں ہر طرح کے ریاء اور نمود سے دور رکھے ۔ آمین
فواد اسلم المحمدی المدنی
استاد : جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاوں
۵؍ اگست ۲۰۱۸ء