ذات برادری اور ہندوستانی مسلمان

ذات برادری اور ہندوستانی مسلمان

فواد اسلم المدنی

نسل پرستی اور ایک خاص گھرانے کو مقدس ماننا یا اسے خدائی نطفہ سے پیدا شدہ ماننا تاکہ اسی میں بادشاہت اور حکومت و سلطنت محصور رہے تو یہ نظریہ ایرانیوں میں زمانۂ جاہلیت سے رائج رہا ہے.

اور دوسری طرفنَحۡنُ أَبۡنَٰٓؤُاْ ٱللَّهِ وَأَحِبَّٰٓؤُهُۥۚ کا نعرہ لگانے والے بنی اسرائیلی نسل پرستوں نے بھی اپنے خاص نسل اور گھرانے کو مقدس سمجھا اور پھر تلمود جیسی فرقہ پرست کتابیں وجود میں آئیں.

اسی طرح سے ہندوؤں میں جو قدیم طبقاتی نظام ہے اس نے تو نسلی بنیادوں پر جو گھناونی تقسیم کی ہے اور برہمنوں کو سب سے زیادہ تقدس عطا کیا ہے وہ بہت زیادہ خطرناک ہے بالخصوص ہمارے ملک بھارت کے اس ماڈرن ایج میں جبکہ ان جہالتوں کا زبردستی احیاء کیا جا رہا ہے.

تیسرے یہ کہ عموماً آریائی قوموں میں واضح نسل پرستی ملتی ہے خواہ وہ یورپ میں جاکر بسی ہوں یا ہند و سندھ میں آباد ہوئی ہوں یا پھر کسی اور خطۂ ارض میں ہوں، وہاں کے باشندوں پر اپنی نسلی برتری تھوپنا ان کے لئے ایک عام بات ہے.

ان سب کے علاوہ دنیا کے مختلف علاقوں میں میں وقتا فوقتا نسلی برتری کی ہوا اٹھتی رہتی ہے کبھی عروج حاصل کرنے کی خاطر ایک خاص نسل کے لوگوں کو اکٹھا کرنا مقصود ہوتا ہے تو کبھی عروج پر پہونچنے کے بعد یہ کیڑا کلبلانے لگتا ہے.

الغرض اس ترفع اور تکبر کے ظاہرے کا دنیا میں کافی معارضہ بھی ہوا ہے خواہ ایکش کے ری ایکشن کے طور پہ یا ایک مخلص اصلاحی تحریک کے طور پہ یا پھر نسلیوں کے بالمقابل غیر نسلیوں کی جتھہ بندی اور سیاسی طاقت کے حصول کے طور پہ ٹکراو سامنے آئے ہوں ۔ ایک تازہ مثال اسی سال 25 مئی 2020 کو امریکہ میں وہاں کی گوری پولیس کے ذریعہ مارے گئے ایک کالے شخص “جارج فلوئیڈ” کی موت پر بھڑکے ٹکراو اور تشددمیں دیکھا جا سکتا ہے.

لیکن ان سب سرکشیوں اور بے جا بڑبولے پنوں کے تئیں اسلام کی تعلیمات بالکل فطری انداز میں آئی ہیں کیونکہ یہ دین اسی کا دیا ہوا ہے جو نوع انسانی کے ساتھ ساتھ تمام دنیا کا خالق و مالک اور رازق و حاکم ہے. آپ دیکھیں گے کہ جہاں یہ دین دینِ اسلام یہود کے بڑبولے پن کا ردّ کرتے ہوئے کہتا ہیکہ فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُمۖ بَلۡ أَنتُم بَشَرٞ مِّمَّنۡ خَلَقَۚ یعنی اگر تم بہت اچھے، بہت افضل اور خدائی اولاد اور اللہ کے چہیتے ہو تو تمہارا رب تمہیں عذاب کیوں دیتا رہتا ہے تمہارے گناہوں کی وجہ سے، بلکہ حقیقیت یہ ہیکہ تم بھی اللہ کی مخلوق میں سے ایک مخلوق انسان ہو بس. یہاں پر دین اسلام کا فطری اور آفاقی نظام دیکھئے کہ ایک طرف جہاں یہودیوں اور نصرانیوں کی بے جا برتری کو کنڈم کرتا ہے اور ان سے اس پر کراس سوال بھی کرتا ہے تاکہ انکا زعم ختم ہو سکے ،تو دوسری طرف قوموں اور قبیلوں کی تشکیل کو باقی رکھا تاکہ ان میں آپسی تعارف قائم ہوسکے اور فرمایا : ﴿ يَٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّا خَلَقۡنَٰكُم مِّن ذَكَرٖ وَأُنثَىٰ وَجَعَلۡنَٰكُمۡ شُعُوبٗا وَقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوٓاْۚ إِنَّ أَكۡرَمَكُمۡ عِندَ ٱللَّهِ أَتۡقَىٰكُمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٞ [ المائدہ : ۱۳ ] اس آیت کریمہ میں ناس کے عمومی لفظ سے خطاب بتا رہا ہیکہ یہ بنی نوع انسان کیلئے ایک عام حکم ہے کہ ہم نے تم کو قوموں اور قبیلوں میں بنایا ہے. حالانکہ تمہاری شروعات ایک مرد اور ایک عورت ہی سے ہوئی تھی۔ اب اگر حسب و نسب کو لیکر کرم، شرف اور برتری کا کچھ مسئلہ تمہارے ذہنوں میں کبھی آتا ہے – جیسا کہ دنیا کی مختلف قوموں اور علاقوں میں قوم قبیلے کو لیکر برتری پھیلی ہوئی ہے- تو یاد رکھنا کہ تم میں اللہ کے نزدیک سب سے بہتر اور سب سے اچھا وہ ہے جو اللہ کا سب سے زیادہ تقوی رکھتا ہو.

گویا اسلام کا نقطہ نظر بالکل کلیر ہیکہ برتری اور شرف صرف دیندرای و پرہیزگاری کی بنا پر ہوگی نہ کہ کسی خاص نسل اور قوم کی وجہ سے.

اب جس دین کا اتنا شاندار طرۂ امتیاز رہا ہو اور جس کی اسی امتیازی شان نے دنیا کے دبے کچلے اور ستم رسیدہ لوگوں کو ہمیشہ اپیل کیا ہو، انہیں اس دین کی آفاقیت کی طرف بلایا ہو اور انکے لئے اس صفحہ ہستی پر انسان کی طرح چلنا آسان بنایا ہو، آج اسی دین کے ماننے والے کس قدر ذات برادری کی لعنت میں پڑے ہوئے ہیں کہ بسا اوقات نسلی برتری کرنے والا اور طبقاتی نظام میں جینے والا بھی ہماری ذات برادری کے چونچلوں کے سامنے خود کو بونا سمجھنے لگے اور یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ: بھئی تمہاری چھوٹی چھوٹی برادریوں اور اس پر ان بڑے بڑے تعصبوں سے تو ہمارا قدیم طبقاتی نظام ہی اچھا ہے. اور یہ بالخصوص ایسے ایام میں جب یہ لوگ اپنے قدیم طبقاتی نظام کو چھوڑ ایک رام اور ایک راشٹر کے نام پر متحد ہونا چاہ رہے ہیں

اس لئے میرے مسلم بھائیو اور بہنو! ہم سب ہوش کے ناخن لیں اور اس لمحۂ فکریہ کے تئیں سنجیدہ بنیں اور اپنا محاسبہ کریں کہ:

کیا ہم مسلمانان ہند آپسی ذات پات اور علاقائی عصبیتوں کے شکار تو نہیں ہیں؟

کیا ہم مسلمان ہندوؤں میں نچلی ذات والوں کو خود ہندوؤں سے زیادہ نچلا نہیں سمجھ رہے ہیں؟

کیا ہم نے کئی ہندوؤں کو یہ کہنے پر مجبور نہیں کیا کہ “تمارے یہاں کی ذات برادری ہمارے یہاں کی ذات برادری سے زیادہ عمیق اور گہری ہے”.؟

کیا ہم نے شادی بیاہ سے لیکر عام اجتماعی و معاشرتی بیانیے تک کو اپنی ذاتوں اور برادریوں تک محدود نہیں کر رکھا ہے؟

کیا ہم اپنے خاندان کے کسی لڑکے کی شادی دوسری ذات کی لڑکی سے کرنے پر اسکا مقاطعہ نہیں کرتے ہیں – خواہ کسی بھی لیبل پر ہو-؟ یا کم از کم اسے دل میں برا نہیں سمجھتے ہیں کیا؟

کیا ہم من جملہ مسلمان آپسی برادریوں میں سے بعض کو اعلی و ارفع ذات برادری اور بعض کو چھوٹی ذات نہیں مانتے ہیں؟

اور یہ چیز صدیوں سے کرتے آئے ہیں

تو آخر کیوں؟

اگر یہ درج بالا سوالات فی الحال ہندوستان میں ہماری معاشرتی اور سماجی پہچان نہیں ہیں تو پھر ہم کیوں روندے جاتے ہیں؟

اور اگر ان سوالات کے جوابات نفی میں ہیں تو برائے کرم اپنی زبوں حالی کے دوسرے اسباب پہ غور کرنے کا مقام ہے

ورنہ ہم اس نفی والے جواب کو “اختیار” کرکے کسی شترمرغی کیفیت میں بند تو ہوسکتے ہیں لیکن نکل نہیں سکتے.

کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا خود کو مصداق بنا رہے ہیں کہ “میری امت میں جاہلیت کے کاموں میں سے ایک کام ہوگا کہ لوگ اپنے حسب نسب پر فخر کریں اور دوسرے کے نسب میں طعنہ زنی کریں گے”. اگر بات ایسی ہے تو ہمارے لئے یہ افسوس کا مقام ہے، فخر کا نہیں.

دنیا میں عربی زبان و تہذیب کہ جس میں اسلام کا نزول ہوا اور جو قبائل کی تہذیب مانی جاتی ہے، وہاں زمانۂ جاہلیت میں اگرچہ معمولی معمولی باتوں پہ تلواریں کھنچ جاتی تھیں اور سالوں سال جنگیں ہوتی تھیں لیکن ایرانی یا آریائی طرز کا کسی قبیلے کو تقدس دیدینا میرے ناقص علم کی حد تک معدوم نظر آتا ہے . الله أعلم

سوائے اسکے کہ قریش کو جو برتری حاصل تھی خانہ کعبہ کی تولیت کی وجہ سے تو وہ ایک انتظامی امور کی حد تک تھی کہ جس سے قبائل میں انتشار نہ پیدا ہو اور لوگ بنو اسماعیل کے ایک قریبی خاندان کی تولیت قبول کرتے رہیں. اور اسے اسلام نے بھی باقی رکھا “الأئمة من قريش” کہہ کر.

یا اسی طرح سے کچھ انفرادی اور ذاتی ناحیے کا حقد دوسرے قبیلے یا گھرانے کیلئے رہا ہے مثلا ابو جہل کا حقد بعثت نبی کو لیکر کہ جب ہم دونوں نے ایک جیسا کام کیا ہے البیت العتیق کی خدمت اور عمومی انسانی خدمات کے باب میں تو یہ نبی کہاں سے لے آئے؟ اور اب میں نبی کہاں سے لاؤں؟

تو یہ حقد کسی ذاتی طور کا انفرادی تھا جسے رسمی حیثیت نہیں حاصل تھی برخلاف یہود کے حقد و حسد کے.

یہ تو رہا عرب جاہلیت کے قبائل میں حریت کا معاملہ جو “تقدیس القبیلة”سے بالکل مختلف معاملہ تھا، اسی طرح سے موجودہ عرب دنیا اپنے قبائلی نظام کی پوری پابندی کے ساتھ شادی بیاہ میں ذات پات چھوت چھات یا علاقائیت و عصبیت سے جس قدر دور ہے وہ اپنے آپ میں بہترین بات ہے حالانکہ انکے یہاں بھی بعض رسوم و رواج ہیں شادی بیاہ میں مثلا مہنگے مہر کا مطالبہ وغیرہ لیکن ذات پات، تو مجھے یکسر نابود نظر آیا (شاذ و نادر کو چھوڑ کر: کسی کے علم میں اس تعلق سے کچھ شاذ و نادر واقعات ہوں تو ذکر کر سکتے ہیں).

رہا ایک مسئلہ کہ مطلق عرب جنس کی فضیلت کا تو وہ حدیث سے ثابت ہے اور ان میں آپس میں بھی کچھ قبائل کی فضیلت دوسرے قبائل پر اور سب سے زیادہ فضیلت بنو ہاشم کی تمام قریش پر اور آل بیت کی فضیلت دیگر بنو ہاشم پر تو یہ تمام چیزیں ثابت ہیں (یہاں انکی تفصیل کا موقع نہیں) اس شرط کے ساتھ کہ اللہ کے نزدیک سب سے بہترین وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی اور پرہیزگارہو۔ تو قریش میں بہت سے ایسے تھے جو تقوی و پرہیزگاری تو دور، باقاعدہ کفار و مشرک تھے اور اسلام و پیغمبر اسلام کے ازلی دشمن بھی تھے.

اسی بابت کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے لیکن اس سے پہلے ایک حدیث رسول ملاحظہ فرمائیے اور اسے یاد کرکے ہمیشہ زبان زد رکھیے قال ﷺ : مَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ ، لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ (صحيح مسلم : 4996) یعنی جس شخص کے اعمال ٹھیک نہیں ہوں گے تو اسے اسکے حسب نسب سے کچھ فائدہ نہیں ملنے والا.

ایک شعر جو سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے ملاحظہ کیجیے :

لعمرك ما الإنسان إلا بدينه

فلا تترك التقوى اتكالا على النسب

فقد رفع الإسلام سلمان فارس

وقد وضع الشرك الشريف أبا لهب

کہ انسان اپنے دینداری سے ہی سب کچھ بنتا ہے لہذا تم تقوی و پرہیزگاری کبھی مت چھوڑنا… اس وجہ سے کہ دین اسلام سے ہی سلمان فارسی کو عزت و رفعت ملی حالانکہ وہ فارسی النسل تھے… لیکن دین چھوڑ کر شرک پہ مرنے والے ابو لہب کی عزت اتر گئی جبکہ وہ قریش کے شریف قبیلے سے تھا.

تو عزت و رفعت اللہ کے نزدیک دین داری کی وجہ سے ہے . اسلام شروع ہی ایسے ہوا کہ اس میں آنے والے حبشی غلام حضرت بلال جنکی قریش کے یہاں کوئی وقعت نہیں تھی لیکن انکی دینداری کی وجہ سے ہی انکے پیروں کی چاپ جنت کے اندر رسول اللہ ﷺ کو سنائی گئی حالانکہ ابھی وہ دنیا میں زندہ تھے.

لیکن دوسری طرف قریش کا حسب نسب اور ہاشمی گھرانا اور عرب میں سرداری کا مقام رکھنے والا، آپ ﷺ کا چچا ابولهب یعنی قبیلہ بھی شریف، گھرانہ بھی شریف لیکن دین سے بیزاری اور شرک و کفر نے قیامت تک کے لئے اسے ذلیل وخوار کر دیا اور رہتی دنیا تک لوگ قرآن پڑھیں گے اور اسے لعنت و ملامت سے نوازتے رہیں گے بلکہ اسکا تو آخری آخری انجام ہی اتنا برا ہوا کہ اسی دنیا میں ہی اسکے گھر اور فیملی والے اسکی لاش کے تعفن اور بدبو سے بچنے کیلئے اسکے قریب بھی جانا گوارہ نہیں کرتے ہیں اور کسی لکڑی سے ایک گڈھے میں ڈھکیل کر دور سے ہی پتھر مار کر دفنا دیتے ہیں.

تو یہ رہا ہمارے پیارے دین اسلام کا کلیر اور انسانیت نواز اور ذات پات سے بالکل دور کا نقطۂ نظر کہ جس کا عمل ٹھیک نہیں تو اس کے حسب و نسب کا کوئی فائدہ نہیں ہے.

اب ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہاں کی عوام کو ان پاکیزہ اور آفاقی تعلیمات کی کتنی سخت ضرورت ہے، یہ کسی سے مخفی نہیں ہے

بلکہ یہ تعلیمات اور پورا دین اسلام ان کے لئے کسی نجات دہندہ سے کم نہ ہوگا بالخصوص ایسے دور میں جب کہ آئے دن دلتوں کے ساتھ ناروا اور بھدے سلوک اپنائے جاتے ہیں اور ان امتیازی سلوک کی تعداد میں ادھر کچھ سالوں سے اور اضافہ ہی ہوا ہے.

آیئے! ہم اپنے دین کو اپنے اوپر اپلائی کریں اور اسکی نمایاں چھاپ اپنے سماج و معاشرے پہ چھوڑیں اور ملک میں ذات پات سے بیزاری کا ایک واضح پیغام دیں، تبھی تو برادرانِ وطن ہمارے درمیان رہنے میں تحفظ کا احساس کریں گے، انہیں اپنے دین کے جور کے مقابلے میں اسلام کا عدل اور مساوات نظر آئے گا، اور ہمارے وہ مسائل جو کسی کیلش یا ٹکراو کی صورت اختیار کرتے جارہے ہیں وہ سب درست ہو جائیں گے. إن شاء الله العزيز

اس عظیم کام سے جہاں برادران وطن اور انسانیت کی خدمت ہوگی وہیں سب سے بڑھ کر یہی ہمارے دعوت دین جیسے عظیم فریضے کی بنیاد اور تمہید ہوگی اور محاسن اسلام کا ایک اچھا تعارف بھی ہوگا جیسا کہ علماء جانتے ہیں کہ دعوت میں محاسن اسلام کو پیش کرنا داعی کا اولین فریضہ ہوتا ہے اور ہندوستان جیسے ذات پات اور اونچ نیچ والے ملک میں اسلام کے محاسن میں اسے سرِفہرست رکھنا چاہیے. ﴿ إِنۡ أُرِيدُ إِلَّا ٱلۡإِصۡلَٰحَ مَا ٱسۡتَطَعۡتُۚ وَمَا تَوۡفِيقِيٓ إِلَّا بِٱللَّهِۚ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ وَإِلَيۡهِ أُنِيبُ

فواد اسلم المدنی ۔مقیم جھنڈا نگر

4/ محرم الحرام 1442هـ

24/08/2020


    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*