بسم اللہ الرحمن الرحیم
زیر نظر مضمون دیکھ کر اسکی تحقیق اور پیش کی گئی فکر پر – وہ بھی اس کم سنی کے عالم میں- اتنا تعجب نہیں ہوتا. ہاں البتہ اسے دیکھ کر جو چیز سب سے زیادہ مجھے یاد آتی ہے وہ ہمارے والد محترم فضیلۃ الشیخ مولانا محمد اسلم المدنی حفظہ اللہ ومتعہ بالصحۃ والعافیۃ کے دیرینہ دوست مولانا عبد المنان سلفی رحمہ اللہ کی والہانہ محبت و شفقت اور علم و اہل علم اور طلبۂ علم کے تئیں انکا حرص اور انکا ایثار نظر آتا ہے وہ ماہنامہ “السراج” جھنڈا نگر نیپال کے ایڈیٹر تھے اور میں سالہا سال پڑھائی کے واسطے کبھی جامعہ اسلامیہ سنابل دلی تو کبھی جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں میں سرگرداں رہا جب کبھی چھٹی میں گھر پہ آتا تو نہایت مشفقانہ انداز میں خبر گیری کرتے اور کچھ لکھنے اور پڑھنے یا تحقیقی کاموں پر ابھارتے رہتے، اللہ کی توفیق کے بعد شیخ رحمہ اللہ کی تحریک پہ ہی کچھ مضامين رقم ہو سکے تھے جنہیں شیخ نے اپنے ماہنامہ ’’السراج‘‘ کی زینت بنایا اور میری یا مجھ جیسے طالب علم کی حوصلہ افزائی فرمائی. فجزاه الله عنا وعن الإسلام والمسلمين خير الجزاء۔
زیر نظر مضمون کے محتویات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کو از سر نو پھر سے لکھا جائے مکمل تحقیق اور اس اسلامی فکر کے ساتھ لکھا جائے جو صدیوں سے مسلمانوں کے یہاں متداول رہی ہے ناکہ استشراقی و انہزامی بوجھ تلے دب کر اپنے ہی علماء اور اپنے اساطین کے فضل و جھود کا انکار کر دیا جائے. وباللہ التوفيق
(مستقبل قریب میں اس ٹاپک پر ایک بڑے دائرے اور زاویے سے لکھنے کا ارداہ ہے۔ إن شاء الله تعالى، وما توفيقي إلا بالله، عليه توكلت وإليه أنيب)