مولانا وحید الدین خان کے ایک تبصرے پر تبصرہ

کارل مارکس (1883 /1818) کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے موجوده دنیا پر سب سے ذیاده فکری اثر ڈالا ہے- یہ بات اس اضافے کے ساتهہ صحیح ہے کہ اس سے متاثر ہونے والے لوگوں میں مسلمان بهی بڑی تعداد میں شامل تهے-

مارکس سے متاثر ہونے والے مسلمانوں میں ایک طبقہ ہے جو باقاعده مارکسسٹ بن گیا- ان کے علاوه بہت سے مسلمان ایسے ہیں جو اپنے آپ کو مارکسی نہیں کہتے مگر وه نہایت گہرے طور پر مارکسی فکر سے متاثر ہیں- یہ وه لوگ ہیں جنهوں نے مارکسیت کو اسلامائز کیا-

مارکسی فکر کے دو بڑے حصے ہیں- ایک اس کا مخصوص نظریہ، دوسرا اس کا طریقہ ( method )- میرے نزدیک غلام احمد پرویز ( 1979 /1910 ) نےمارکس کے نظریہ کو اسلامائز کرنے کی کوشیش کی تھی- اور ابوالاعلی مودودی ( 1979 /1903 ) وه شخص ہیں جنهوں نے مارکسزم کے طریقہ کو اسلامائز کیا- مارکس کے طریقہ کا بنیادی پہلو ” شکست نظام ” ہے- اس کو ابوالاعلی مودودی نے اسلامی اصطلاحوں میں لے لیا-

حالانکہ مارکسی طریقہ اسلام کی ضد ہے- اسلام کا طریقہ اصلا شکست ذہن ہے نہ کہ شکست نظام- ابوالاعلی مودودی کی اسی فکر کا یہ نتیجہ ہے کہ ان کے لٹریچر سے متاثر هونے والے لوگ ساری دنیا میں سسٹم کو توڑنے والی باتیں کر رہے ہیں- اور جہاں مواقع ہیں، وہاں تشدد کے ذریعہ نظام کو توڑنے کی کوشش کر رہے ہیں- اگر ان کے اندر صحیح اسلامی ذہن ہوتا تو وه فکر میں تبدیلی لانے پر ساری طاقت خرچ کرتے نہ کہ سیاسی ڈهانچہ کو توڑنے پر-

ڈائری، 17اپریل1990

مولانا وحیدالدین خان

______________________________

مولانا وحید الدین خان کی درج بالا تحریر پر میرا موقف:

کارل مارکس کا ذکر کرنا بایں طور کہ اسکا نچوڑ بیان کرنے کی کوشش ہو رہی ہو لیکن اسکی شیوعیت اور لادینیت کو ذکر نہ کرنا، یہ کیا کوئی خیانت نہیں ہے کیا؟ لیکن مولانا خان کو دراصل کارل مارکس کا رد تو مقصود ہے نہیں بلکہ کارل مارکس کے جلو میں کسی اور کو ٹارگیٹ کرنا مقصد ہے اور کسی اور کو ٹارگیٹ کیوں کریں گے کہ جب وہ خود اسی کی فکر کے تحت تقریباً 10 سال کام کر چکے ہیں. تو اصل مقصد ہے اس مضمون سے اپنی صلح کل والی بدبودار فکر اور کایرتا والے ذہن کو زبردستی جسٹی فائی کرنا.

کیونکہ مولانا فطرتاً ٹکراو کی پالیسی کے بالکل خلاف ہیں تو یہاں وہ کیسے دو دو نظریہ والوں سے ٹکرا سکتے ہیں.

تو اسکا جواب ہم ایک تمثیل سے یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اگر کوئی مضمحل شخص عین وقت ضرورت لڑائی بھڑائی اور میدان جنگ سے بھاگا ہوا ہو تو پھر وہ اپنی پوری حیات اپنے آپ سے لڑتا رہتا ہے اور اسکے اندر کی یہ جنگ اسے ہمیشہ اپنی کایرتا سے نبرد آزما رکھتی ہے اور پھر یہی آدمی اپنی داخلی کشاکش کی پردہ پوشی کرنے میں کئیوں کی پردہ دری پر اتر آتا ہے.

اور رہے مودودی وغیرہ تو انکی گمراہ کن فکر پہ تو ہمارا اختلاف دین و عقیدہ کی بنیاد پر ہے. جبکہ مولانا ان سے شاید طریقہء کار کی حد تک اختلاف رکھتے ہیں سوائے چند مسائل کے…

اور دونوں ہی در اصل دو گمراہیوں کی الگ الگ انتہا ہیں

اور آپ جانتے ہیں کہ حق ہمیشہ وسط میں ہوتا ہے یعنی دو گمراہیوں اور دو انتہاووں کے مابین.

والله الموفق والهادي إلى سواء السبيل.

فواد اسلم المدنی

٢٩/ اگست ٢٠٢٠م

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*