اسلام میں لباس کے آداب

اسلام میں لباس کے آداب

(ایک تقریر)

نحمده ونصلي على رسوله الكريم أما بعد :  فقد قال الله تعالى ﴿ يَابَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ ﴾ وقال عليه الصلاة والسلام { مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلاَءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ {

صدر مجلس !حکم صاحبان اور معزز اساتذہ کرام!  اللہ رب العالمین نے انسانوں کی سرشت میں آداب اور نظام  کا پابند ہونا رکھدیا ہے کیونکہ یہی آداب  جب کسی بھی چیز یا عمل میں داخل ہوتے ہیں تو اسے حسین اور  شاندار بنا دیتے ہیں اور مذہب اسلام جس نے اپنے ماننے والوں کو قدم قدم پہ تمییز ، طریقہ اور ادب کی تعلیم دی ہے ۔ بلکہ اسنے دنیا کی ہر چیز پہ احسان و اتقان کو واجب کر دیا ہے تو لباس و پوشاک جو کہ انسان کا مظہر، اسکا پیرہن اور بنیادی ضرورتوں میں سے ہے اسے کیسے بے ادب رہنے دیتا ۔ چنانچہ دادا آدم کو جیسے جنت میں لباس فاخرہ عطا کیا گیا تھا ویسے ہی اولادِ آدم کو بھی دنیا میں لباس عطا کیا گیا جو کہ رب العالمین کی بڑی نعمت اور انسانیت و حیوانیت کے درمیان خط امتیاز ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے: ﴿ يَابَنِي آدَمَ قَدْ أَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ    اے اولادِ آدم، ہم نے اتارا تم پر ایسا لباس، جو چھپائے تمہاری شرمگاہیں ، اور تاکہ تمہارے لئے آرائش بھی ہو  اور تقویٰ کا (معنوی) لباس تو سب سے بڑھ کر ہے”۔  اس آیت کریمہ کی رو سے سب سے بڑا ادب لباس کا یہ ہیکہ وہ انسانی شرمگاہوں کی ستر پوشی کرنے والا ہو اور ساتھ ہی  ساتھ  وہ زیب و زینت بھی دینے والا ہو ۔ اب اگر کوئی مرد یا عورت اتنا باریک اور چست لباس پہنے کہ اس سے اسکے سارے اعضاء جسم نمایاں ہو رہے ہوں تو اسے یہ وعید بھرا فرمان نبوی  ضرور سننا چاہیئے کہ : }وَنِسَاءٌ كَاسِيَاتٌ عَارِيَاتٌ لاَ يَدْخُلْنَ الْجَنَّةَ وَلاَ يَجِدْنَ رِيحَهَا {یعنی کچھ جہنمی عورتیں ایسی بھی ہیں جو آنحضور ﷐کے دور میں نہیں تھیں ، ان کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ وہ کپڑے پہن کر بھی ننگی ہوں گی لہذا یہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائیں گی۔

سامعین کرام! لباس کے تعلق سے اہم اسلامی ادب یہ ہیکہ مردعورتوں کی مشابہت سے اور عورتیں مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے بچیں کیونکہ آپ ﷐ نے ایسے لوگوں پر لعنت فرمائی ہے :  }عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّ النَّبِيَّ لَعَنَ الْمُتَشَبِّهِينَ مِنَ الرِّجَالِ بِالنِّسَاءِ ، وَلَعَنَ الْمُتَشَبِّهَاتِ مِنَ النِّسَاءِ بِالرِّجَالِ. {

 لباس کے بارے میں جس چیز سے مردوں اور عورتوں کو بچنا چاہیئے وہ یہ کہ کیہں انکے کپڑوں پہ کسی قسم کے صلیب کا نشان یا کسی اور قوم کی دھارمک علامات وغیرہ تو نہیں ہیں کیونکہ یہ چیز جہاں حدیث  رسول )مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ(۔ کے عموم میں داخل ہے وہیں اس سلسلے میں اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بخاری میں ہیکہ }عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حِطَّانَ أَنَّ عَائِشَةَ ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ، حَدَّثَتْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَكُنْ يَتْرُكُ فِي بَيْتِهِ شَيْئًا فِيهِ تَصَالِيبُ إِلاَّ نَقَضَهُ.{آپ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷐ نے اپنے گھر میں کوئی ایسی چیز یا کپڑا رہنے نہیں دیا جس میں صلیب کی تصویر ہو بلکہ اسے پھاڑ دیا “۔  البتہ اس کے علاوہ ایک چیز ہے جس میں مرد و عورت کے درمیان فرق کیا گیا ہے کہ عورت ایسا لمبا کپڑا پہنے کہ اسکے ٹخنوں کو چھپاتا ہوانیچے تک جائےجبکہ مرد کیلئے یہاں پہ ضروری ہیکہ  وہ اپنے ٹخنوں کو کھلا رکھےاور اسبال ِاِزار  کے گناہ سے بچے کیونکہ آپ ﷐نے  یہ فرمایا ہے کہ :  { مَنْ جَرَّ ثَوْبَهُ خُيَلاَءَ لَمْ يَنْظُرِ اللَّهُ إِلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ { اور ایک دوسری جگہ پہ آنے ایسا کرنے والو پہ اللہ کی لعنت کی ہے ۔ دوسری چیز جس میں مرد عورتوں سے الگ ہیں وہ ہے سونے اور ریشم کا استعمال کہ یہ دونوں چیزیں امت کے مردوں پہ حرام اور عورتوں کیلئے حلال ہیں۔ جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہیکہ آپ ﷺ نے فرمایا : { إِنَّ هَذَيْنِ حَرَامٌ عَلَى ذُكُورِ أُمَّتِي۔}

سامعین کرام! جب ہم نیا لباس  پہنیں تو اللہ کے شکریہ کے طور پہ دعا پڑھنا نہ بھولیں : اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ ، أَنْتَ كَسَوْتَنِيهِ ، أَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِهِ وَخَيْرِ مَا صُنِعَ لَهُ ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ. نیا ہی کیوں بلکہ ہمیں ہر لباس پہنتے وقت دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیئے اور کپڑے کو داہنی طرف سے پہننا چاہیئے جیسا کہ پیارے نبی ﷺ کے بارے میں آتا ہے کہ :}كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يُعْجِبُهُ التَّيَمُّنُ فِي تَنَعُّلِهِ وَتَرَجُّلِهِ وَطُهُورِهِ وَفِي شَأْنِهِ كُلِّهِ ۔} متفق عليه۔

سامعین کرام! کپڑوں کے بارے میں ہمیں تکبر سے بچنا چاہیئے کیونکہ یہ اللہ کو کسی بھی شکل میں پسند نہیں ہے بلکہ ایسے متکبرین کو تو اللہ نے زمین میں دھنسا دیا ہے جو کپڑوں کو گھسٹ کر اور اکڑ کر چلتے تھے ۔۔۔ ایسے ہی ہمیں کپڑوں میں اسراف سے بھی بچنا چاہیئے ، البتہ اچھے  اور خوبصورت کپڑے پہننا کہ جس سے اللہ کی نعمت کا اظہار ہو تو یہ جائز ہے جیسا کہ آپﷺنے فرمایا کہ : { إِنَّ اللَّهَ جَمِيلٌ يُحِبُّ الْجَمَالَ }.اور لباس کے رنگوں میں خالص لال اور زعفرانی رنگ سے اجتناب کرنا بہت ضروری ہے۔ جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص ﷜کی روایت میں آپ ﷺ نے اسے کفار کا لباس کہا  اور انہیں حکم دیا کہ ایسے کپڑے مت پہنا کرو۔

ممنوعہ لباس میں سے ایک لباس لباسِ شُھرہ بھی ہے جس میں ایک شخص عُرفِ عام سے کٹ کر نہایت ہی حقیر فقیر اور گھٹیا  لباس پہنتا ہے تاکہ لوگوں کی التفاتِ نظر کا باعث بنے ، یا اسکے لباس کا رنگ ڈھنگ اتنا تڑک بھڑک والا ہو کہ کو لوگوں کی نگاہیں خیرہ کردے اور اس کے پیچھے مقصد صرف اور صرف شہرت و ناموری اور دکھاوا ہو تو ایسا لباس سراسر حرام ہے ۔  جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ  :  }مَنْ لَبِسَ ثَوْبَ شُهْرَةٍ أَلْبَسَهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَوْبَ مَذَلَّةٍ.{۔ یعنی” جو شخص دنیا میں شہرت کا لباس پہنے گا ، اللہ اسے قیامت کے دن ذلتوں بھرا لباس پہنائیں گے “۔

ساتھیو اور بھائیو ! آج ہم مسلمان اور بالخصوص طلبہ کی جماعت کس بے راہ روی کا شکار ہو گئی  ہے ؟ ہمیں کیا ہو گیا ہے ؟کہ ہمارے کپڑوں پہ نہ جانے کن کن جانوروں اور شرکیہ بتوں کی تصویریں نظر آتی ہیں جن سے ہمارا عقیدہ اور ہماری شناخت بھی مسخ ہو جاتی ہے۔ کچھ احمقوں کو ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ جانے ان جانے میں بے حیائی اور بدکاری والے اشتہارات کی ٹی شرٹیں پہن لیتے ہیں اور اپنی بیوقوفی کا ثبوت دیتے ہیں۔ نسأل الله السلامةَ والعافية  ۔ ا للہ ہمیں عقل سلیم عطا فرمائے اور غیروں کی نقالی سے بچاکر اسلامی آداب زندگی کا شیدائی بنائے۔آمین

آخرُ دعوانا أن الحمد لله رب العالمين

      ✍: فواد اسلم المحمدی المدنی

    استاد ؍ جامعہ محمدیہ منصورہ ، مالیگاوں

    (18 ؍ فروری ۲۰۱۹)

 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*