چوری ایک سنگین جرم

چوری ایک سنگین جرم

 

چوری : لغت میں  سرق یسرق  سے ماخوذ ہے یعنی کسی محفوظ  چیز کو چپکے سے لے لینا

یہ ایک سماجی جرم ہے جسکی ہر دور میں بھیانک سزا رہی ہے ۔ اور اس جرم سے لوگوں کا مال غیر محفوظ ہوجاتا ہے اور اسکا مجرم ایک بزدل اور کمینگی و بے شرمی کی زندگی گزارنے پہ مجبور ہو جاتا ہے۔

چوری متفق علیہ کبیرہ گناہ ہے  امام ذہبی نے اپنی کتاب کتاب الکبائر میں اسے  ۲۳ویں نمبر پہ ذکر کیا ہے

اس پر اللہ کی کتاب میں باقاعدہ حد نازل ہوئی ہے   وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُما جَزاءً بِما كَسَبا نَكالًا مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ (38) فَمَنْ تابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللَّهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (39)

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہاتھ کاٹا ایک ڈھال کی چوری میں جس کی قیمت تین درہم تھی (متفق عليه)

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ فرماتی ہیں کہ (امرائے) قریش ایک مخزومی عورت کے معاملہ میں بہت ہی فکر مند تھے جس نے چوری کی تھی (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے دیا تھا) وہ لوگ کہنے لگے کہ اس سارقہ کے واقعہ کے متعلق کون شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بات چیت کرے بعض لوگوں نے کہا اسامہ بن زید جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہیتے ہیں اگر کچھ کہہ سکتے ہیں تو وہی کہہ سکتے ہیں ان لوگوں نے مشورہ کر کے اسامہ بن زید کو اس بات پر مجبور کیا چنانچہ اسامہ نے جرأت کر کے اس واقعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چہیتے اسامہ سے کہا کہ تم اللہ کی قائم کردہ سزاؤں میں سے ایک حد کے قیام کے سفارشی ہو یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے اور لوگوں کے سامنے خطبہ فرمایا کہ تم سے پہلی امتیں اس لئے ہلاک ہوئیں کہ ان میں جب کوئی شریف آدمی چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور سزا نہ دیتے اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے قسم ہے اللہ کی! اگر فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ بھی کاٹ ڈالوں۔

لا يسرق السارق حين يسرق و هو مؤمن ) الحديث)

چوری فساد فی الارض کا ایک بڑا مظہر ہے  ارشاد ربانی ہے قالُوا تَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُمْ ما جِئْنا لِنُفْسِدَ فِي الْأَرْضِ وَما كُنَّا سارِقِينَ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے  بیعت اس بات پر ہوتی تھی کہ لوگ  دیگر گندے گناہوں کے ساتھ ساتھ چوری سے بھی توبہ کرلیں ۔ارشاد ہوا    يا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذا جاءَكَ الْمُؤْمِناتُ يُبايِعْنَكَ عَلى أَنْ لا يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئاً وَلا يَسْرِقْنَ وَلا يَزْنِينَ

عن أبي هريرة- رضي اللّه عنه- أنّه قال: قال رسول اللّه صلّى اللّه عليه وسلّم: «لعن اللّه السّارق يسرق البيضة فتقطع يده ويسرق الحبل فتقطع يده ) متفق عليه(

چوری پہ زمانہ جاہلیت سے ہی ہاتھ کاٹا جاتا تھا جیسا کہ قریش نے کعبہ کے خزانے کو چرانے والے کا ہاتھ کاٹا تھا

امام  احمد کہتے ہیں کہ اگر کسی نے جان بوجھ کر کسی سےچوری کا مال خریدا تو گویا وہ اسکی چوری میں شریک ہے ۔

نقصانات :  چوری سے  آدمی کے کمال ایمان میں نقص اور کمی آجاتی ہے

چور سے لوگوں کا بھروسہ ہمیشہ کیلئے اٹھ جاتا ہے

چوری دنیا میں بدنامی لعنت ملامت اور آخرت میں دردناک عذاب کا سبب ہے

چوری سے  آدمی کے نفس میں ایک گھٹیاپن اور اخلاقی گراوٹ آجاتی ہے

 

            ✍فواد اسلم المحمدی المدنی  (۱۲ ؍ جنوری ۲۰۱۹)

            استاد ؍ جامعہ محمدیہ منصورہ ، مالیگاوں

 

 

اسلام میں مال کا حقیقی تصور

 

 

 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*