شیخ عبد المنان سلفی رحمہ اللہ
ایک شفیق مربی اور عظیم عالمِ دین
عظیم عالم دین وہ ہوتا ہے جسے اللہ رب العالمین نے قرآن میں ”ربانی” کہا ہے اور اس کی صفات یہ بتائی ہے کہ وہ جتنا علم لوگوں کو سکھاتا ہے یا خود سیکھتا ہے ، اس میں ”اللہ والا“ بن کر رہتا ہے ﴿ كُونُواْ رَبَّٰنِيِّـۧنَ بِمَا كُنتُمۡ تُعَلِّمُونَ ٱلۡكِتَٰبَ وَبِمَا كُنتُمۡ تَدۡرُسُونَ ٧٩ [سُورَةُ آلِ عِمۡرَانَ] ربانی عالم وہ نہیں ہوتا جو بندھی چنی نصابی کتابوں کا جانکار ہو ، بلکہ وہ فقیہ ہونے کے ساتھ حلیم و بردبار ہوتا ہے تو ماہر فن ہونے کے ساتھ حلیم و دوراندیش بھی ہوتا ہے کیونکہ ”ربانی“ جہاں منسوب ہے رب کی طرف ، وہیں اس کی نسبت ”ربان“ کی طرف بھی ہے جو لوگوں کی تربیت کرتا ہے اور ان کے امور کی اصلاح و درستگی بھی کرتا رہتا ہے۔
ان صفات حمیدہ کا ذکر ہو رہا ہےاور نگاہوں کے سامنے مولانا عبد المنان سلفی رحمہ اللہ کی شخصیت ان تمام ستودہ صفات کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے، حالانکہ درحقیقت آ پ کی شخصیت ان چند الفاظ کے حصار سے کافی بلند اور اونچائی پر تھی اور فعلاً آپ ایک ربانی عالم تھے۔ جیسا کہ آپ کا نمونۂ سلف وضع قطع اور علم کی گہرائی و گیرائی اس پر دلیل ہے، ساتھ ہی ساتھ لوگوں کی تربیت اپنے مسلسل خطبوں کے ذریعہ، جامعہ سراج العلوم میں درس وتدریس کے حوالے سے طلبہ کی تربیت ، اور اپنے ضلع کی جمعیت میں سلفیان سدھارتھ نگر کی دعوتی و تنظیمی اور منہجی تربیت اور دور دراز کے جلسوں میں بلائے جانے پر اپنی دعوت اور معارف کی نشرو اشاعت کے ذریعہ ایک بڑے آفاق کی فکری تربیت بھی فرمارہے تھے ، جس کا ببانگ دہل ثبوت تب سامنے آیا جب آپکی ناگہانی اور اچانک وفات پر چہار دانگ عالم میں ایک ڈنکا سا بج گیا ،لوگ ہرطرف حیران وششدر اور سوگوار نظر آنے لگے ، نیپال میں ایک طرف لاک ڈاؤن اور کرفیو کا ماحول تو دوسری طرف لب ِ جھنڈا نگرپڑوسی ملک ہندوستان کی سرحد بالکل بند ہے لیکن اس کے باوجود بھی لوگ بارش کیچڑ اور دیگر تمام پابندیوں کو برداشت کرکے جوق درجوق جس طرح جھنڈینگر کا قصد کر رہے تھےوہ اپنے آپ میں قوم مسلم کا اپنے عالم ربانی سے شدید لگاؤ کا بین ثبوت تھا جسکی مثالیں دنیا میں کم ملتی ہیں ۔ اور ائمۂ اہلِ سنت سے یہ صادر بھی ہیکہ وہ اہلِ بدعت سے کہا کرتے تھے : ”بیننا وبینکم الجنائز“ کہ یہی جنازے ہمارے اور تمہارے درمیان خط امتیاز کا کام کرتے ہیں ، اور تاریخ شاہد ہیکہ جب امام احمد بن حنبل کا جنازہ اٹھتا ہے یا امام ابن تیمیہ کا جنازہ لیجایا جاتا ہے تو ان کو اپنا قدوہ اور اسوہ ماننے والی عوام کسی سمندر بے کراں کی مانند تاحد نگاہ پھیل جاتی ہے ۔
شیخ رحمہ اللہ زندگی بھر علم وادب کی خدمت کرتے رہے ، ابھی وفات سے کچھ ہی دنوں پہلے کی بات ہے کہ قادیانیت پر آپ کی شاہکار تصنیف اور وقیع معلومات سے بھر پور وہ کتاب جسکا لوگوں کو انتظار ہے مکمل کرکے اٹھے تھے ، اسکی تسوید و تبییض حتی کہ کمپیوژنگ کا کام بھی ختم ہو چکا تھا ، بس ایک پروف ریڈنگ کی بات باقی تھی ۔ دراصل آپ کی زندگی چپ بیٹھنے والی زندگی کبھی نہ تھی ، ہمیشہ حرکت ونشاط اور حیویہ سے بھر پور زندگی تھی ، کب بھی کبھی جامعہ سراج العلوم میں داخل ہوا تو شیخ کو کسی نہ کسی علمی کام میں مشغول پایا اور یہ کام ایسے نہ تھے کہ کسی حجرے میں مقید ہوکر کرتے تھےبلکہ یہاں پر بھی آپ کی ایک ربانی خصوصیت یہ بھی تھی کہ دیگر تمام رفقاء کار کو ساتھ لیکر چلتے تھے اور اپنے نشاط سے تمام متعلقین کو بھی نشیط رکھتے تھے اور اس طرح علم و تحقیق کا یہ کام یا انتظام و انصرام کی باگ ڈور پورے آب و تاب کے ساتھ آگے بڑھتی رہتی تھی ۔ الغرض آپ کی ہمہ جہت شخصیت اور یہ تمام امور مع علمی و دعوتی زندگی کو کسی حد تک حوالۂ قرطاس کیاجائے تو مجلدات درکار ہوں گے ۔
آپ کی شفقت بھری تربیت کا عالم یہ تھا کہ کئی بار دستار بندی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا تو دیکھا کہ طلبہ خود بخود آپ کی طرف اپنا سر بڑھائے بڑھے آ رہے ہیں کہ شیخ کے ہی دستِ مبارک سے ہی انکی دستار بندی ہو پھر اس دستار بندی پروگرام کے بعد دیکھا کہ طلبہ آپ کی معیت میں تصویریں نکلوانے کیلئےڈھونڈتے پھر رہے ہیں ، اور آپ کے ساتھ پرمسرت ہوکر تصویر کھینچواتےہیں اورشاید وہ کیمرے میں قید اس پل کو تاریخی سمجھ رہے ہوں گے ۔ یہ شفقت و مہربانی دراصل اس دوطرفہ محبت کا نام ہے جس میں بچوں سے زیادہ استاد انکے نفس کا مخلص اور خیرخواہ ہوتا ہے اور بچوں میں اس شرحِ صدر کا آنا اس بات کا غماز ہیکہ استاد نے درس کے دوران اپنی ایصال المعلومہ اور تفہیم الدرس کی ڈیوٹی پوری امانت سے نبھائی ہے اور بچوں کو سبق کے تئیں انشراحِ صدر اور مکمل تشفی و اطمئنان ملا ہوا ہے ۔ المہم شفقت و شگفتگی آپ کی شخصیت کا ایک حسین زیور تھا۔
اس خاکسار کا بھی شیخ رحمہ اللہ کے ساتھ تقریباً ربع صدی کا تعلق رہا ہے ، دراصل ہمیں آپ سے جو شفقت ، محبت ، رہنمائی اور حوصلہ افزائی ملی اسکے پسِ منظر میں ہمارے والدِ محترم فضیلۃ الشیخ محمد اسلم المدنی حفظہ اللہ ومتعہ بالصحۃ والعافیۃاور شیخ رحمہ اللہ کی دیرینہ دوستی کا اہم رول کارفرما ہے ۔ آپ رحمہ اللہ ، والد صاحب کے جامعہ سلفیہ بنارس سے ہی ساتھی رہے ہیں اور جب جامعہ سراج العلوم میں آپ کی آمد ہوئی تو گویا والد صاحب حفظہ اللہ کو ان کا دیرینہ دوست دوبارہ واپس مل گیا کو کسی نعمتِ غیر مترقبہ سے کم نہ تھا ۔اور پھر یہیں سے آپ دونوں کی محبت و دوستی کا ایک نیا دور شروع ہواجس میں آپ ہمارے والد صاحب کے دوست کم اور بھائی زیادہ لگتے تھے، نتیجتاً ہم بھائی بہن بڑے ابّا ہی کہہ کر پکارتے تھےاور آپکا دستِ شفقت ہم پر برابر دراز رہتا تھا۔فجزاه الله عنا خير الجزاء
جامعہ سراج العلوم میں مکتب کی تعلیم ختم کرنے کے ایک سال بعدحفظِ قرآن کے واسطےجب پہلی بار باہر جانا ہوا تو شیخ رحمہ اللہ برابر حوصلہ بڑھاتے رہے، بلکہ ایک دفعہ کا ذکر ہیکہ میں اپنے ناتواں کندھے پر بیگ لادے خراماں خراماں گھر سے اسٹیشن کے لئےنکلا ہی تھا کہ آپ راستے میں مل گئے، گویا منتظر ہی تھے،اور مجھ سے بیگ لے لیا ، راستے بھر کافی حوصلہ افزائی کی باتیں بھی کرتے رہے، دراصل گفتگو میں انداز ایسا شگفتہ اور پرمذاق اختیار فرماتے تھے کہ باتیں آدمی کا دل موہ لیں اور بغیر کسی بوریت کے وہ دل پر اثر بھی کریں ۔ یہ موقعہ اور اس کے علاوہ بے شمار ایسے مواقع آئے جہاں آپ نے ہمیشہ میری تشجیع ہی کی ہے ، بالخصوص ڈومریاگنج شعبۂ حفظ سے فراغت کے موقعہ پرآپ والد صاحب کے ساتھ تشریف لائے ، پروگرام میں تقریر کی اور ہم سب فارغین کو عمدہ نصائح سے نوازا۔ پروگرام کے ختم ہونے کے بعد مجھے الگ سے بلایا اور وہاں پر بھی میری تشجیع فرمائی اور پوچھا کہ آگے کہاں جانا ہے تو جب پتا چلا کہ جامعہ اسلامیہ سنابل نئی دہلی کا قصد ہے تو بہت خوش ہوئے اور دعائیں دیں۔الغرض چاہے سنابل کی زندگی ہو یا جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں کا زمانہ، جب کبھی میں چھٹیوں پہ والدین کے پاس آتا تو آپ ہمیں ضرور اپنے یہاں دعوت دیتے اور تکریم کا معاملہ فرماتےتھے ، ہر موڑ پر میرے ساتھ آپ کے بہت مشفقانہ مواقف رہے ہیں جو میں بھول نہیں پا رہا ہوں ، کیونکی کسی طالب کی سرگرداں زندگی میں ان اعاظمِ رجال کے ہاتھوں کا سر پہ ہونابہت معنی رکھتا ہے۔
آج آپ ہمارے بیچ نہیں رہےلیکن آپ کے یہی انمٹ نقوش ہیں جو آپ کو ہمارے دلوں میں زندہ رکھے ہوئے ہیں ، آپ کی زندگی سےہم کئی دروس و عبر اخذ کر سکتے ہیں ، جن میں سے آپ کی ایک خصوصیت جو علماء کرام کو بالخصوص اور عالم اسلام کو بالعموم درپیش چیلنجوں کے تئیں دعوت مبارزت دیتی ہے وہ یہ کہ آپ ہمیشہ جدید مسائل اور نئی تکنیک سے اپڈیٹ رہا کرتے تھے، آپ کا حوصلہ ہی اس قدر رواں دواں اور جواں تھا کہ آپ کبھی کسی پرانی سوچ یا روایتی انداز پر باقی نہ رہتے تھے، بلکہ ہر جدید صالح و نافع کو اپنی زندگی میں اپلائی کرتے تھے. اور یہ چیز ایک داعی کیلئے بہت ضروری بھی ہے، اسی سے دعوت کو زندگی ملتی رہتی ہے اور داعی کو زمانے کے اندر کاندھے سے کاندھا ملاکر چلنا بھی آسان ہو جاتا ہے. اس باب میں بطورِ مثال شیخ رحمہ اللہ کی اپنی وفات سے کچھ مہینے قبل یوٹیوب پر شروع کیا گیا دروس کا وہ شاندار سلسلہ ہے جسے لوگوں نے بہت پسند کیا اور جس سے کافی لوگوں کو فائدہ بھی ہوا. فلله الحمد.
آپ کی گوناگوں اور ہمہ جہت شخصیت میں سے کیا کیا گناؤں اور کسے نہ گناؤں یہ فیصلہ کرپانا مشکل ہے۔
؏
ليس على الله بمستنكر
أن يجمع العالم في واحد
اس عظیم عالم دین کے لئے اللہ کی بارگاہ میں ہم سب دعا گو ہیں کہ مولی انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے اور ان کی خدمات جلیلہ کو قبول عام نصیب فرمائے اور ان کی باقی ماندہ تحاریر کو نشر و تدوین نصیب فرمائے اور انکی نیکیوں کو قبول فرما کر بشری خطاؤں سے در گزر فرمائے.پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے اور انکو “خیر خلف لخیر سلف“ کا مصداق بنائے.
(اللهم اغفر له وارحمه وعافه واعف عنه وأكرم نزله ووسع مدخله واغسله بالماء والثلج والبرد ونقه من الخطايا كما ينقى الثوب الأبيض من الدنس اللهم ألهم أهله وذويه الصبر والسلوان)