بد اخلاقی اور اس کے مضر اثرات

بد اخلاقی  اور اس کے مضر اثرات

)برائےعزیزم فرحان اسلم سلمہ۔جماعت :اولی۔ سالانہ انجمن جامعہ سنابل، نئی دہلی (

محمد اسلم المدنی

اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہم کو مسلمان بنا یا  اور ہما ری ہدایت کے لئے بہت سے  ابنیاء کرام کو مبعوث فرمایا ۔اللہ تعالی ہم سب کو نیک عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے  آمین   

بد کرداری اور اس کے مضر اثرات

            حسن خلق ایک نہایت ہی مہتم بالشان صفت ہے ۔اس کا مقام ومرتبہ نہایت ہی بلند اورعظیم ہے ۔ اس کے ذریعہ قلوب پر حکمرانی کی جا سکتی ہے ۔بڑے سے بڑے معرکوں کو سر کر کے اعداء کو اسیر کیا جا سکتا ہے ،   معاشرتی مسائل ،گھریلوتنازعا ت کو یکلخت حل کرکے سکون وطما نینت کا  ذخیرہ جمع کیا جا سکتا ہے،اسی وجہ سے  مذہب اسلام نے اچھے اخلاق پر نہ صرف ابھارا ہے ، بلکہ ایک مومن کیلئے اسے ضروری قرار دیا ہے ،  اور بد کرداری کو فعل شنیع سےتعبیر کیا ہے ،کیو نکہ یہ وہ مذموم صفت ہے جس سے ہمارا رب ہم سے روٹھ جاتا ہے ،گھر کے افراد میں ناچاقی پیداہوجاتی ہے ، اور طرح طرح کے مسائل ہمارا انتظار کرتے ہیں ۔

            بداخلاقی کے باعث بدخلق آدمی سماج و معاشرہ  کی نظر میں  گر کرگھٹیا شکل اختیار کر لیتا ہے ، لوگوں  کی نظروں سے گر کر اپنی دنیا کو جہنم بنا لیتا ہے، جیسا کہ بعض حکماء نے اس کی ترجمانی یوں کی ہے :

ثلاثة لا يهنأ لصاحبها عيش            الحقد- والحسد – وسوء الخلق

تین چیزیں ایسی ہیں جس میں پا ئی جائیں اس کی زندگی  خو ش گوار نہیں ہوتی ، بغض حسد اور بد اخلاقی، مذہب اسلام نےانسانوں کی زندگی کو خوش گواربنانے کیلئے اچھے اخلاق کا خوگربنانے اور رذیل و برے اخلاق سےکنارہ کشی کا حکم دیا ہے۔

اسلام کی تعلیم ہے کہ ایک مسلمان جب اپنے دوسرے بھائی سے ملے تو منھ بسور اور بگاڑکر نہیں  بلکہ خندہ پیشانی سے ملے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نیکی  سے تعبیر فرمایا ہے، (لا تحرقن من المعروف شیئا ولو أن تلقی أخاک بوجه طلق) صحیح مسلم۔

اور دوسری جگہ صدقہ سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: (تبسمک في وجه أخیک صدقة)

اسلام نے انسانوں کو طرز تخاطب کا طریقہ بیان کرتے ہوئے بھی بیان فرمایا: ﴿وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسۡنٗا[سُورَةُ البَقَرَةِ:۸۳]     اور     (الكلمة الطيبة صدقة)  متفق علیہ

            اسلام نے بد خلقی کی جڑکاٹ دی ہے ، خواہ کسی بھی شکل میں ہو۔ کہیں فرمایا : ( سباب المسلم فسوق وقتاله کفر)   تو کہیں اللہ کے رسول نے اس کو مفلس سے تعبیر کیا ۔جیساکہ حضرت جابر  رضی اللہ عنہ سے وایت ہے کہ ایک دن اللہ کے رسول ﷺنے صحابہ کرام کو مخاطب کر کے فرما یا کہ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے ؟  صحا بہ کرام گویا ہوئے کہ اللہ کے رسول مفلس وہ ہے کہ جس کے پاس دینار ودرہم  اور گزران کا سامان نہ ہو ،تو اللہ کے رسول ﷺنے فرمایا  امت کا مفلس وہ ہے جو برو ز قیامت اپنی نماز وزکوۃ کے ساتھ آئے گا ، لیکن کوئی آکر عرضی داخل کرئے گا کہ اے اللہ!  اس شخص نے مجھے گالی دی تھی ، کوئی آکر کہے گا کہ اے اللہ اس نے میری عزت خاک میں ملادی تھی  ،کوئی کہے گا کہ اس نے میرا مال کھایا ہے ، نتیجہ کیا ہوگا؟

             میرے بھائیو !اللہ تمام لوگوں پر اس کی  نیکیاں تقسیم کر دیگا ، یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی  ،مگرفریادرسوں کی تعداد باقی ہوگی، پھر  بقیہ لوگوں کے گناہ بھی اس پر لاد کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا (صحیح مسلم)

            حاضرین کرام یہاں پیش کی گئی حدیث سے بد خلقی اور بد کر داری کی  شناعت  خوب واضح ہو جاتی ہے کہ بد کرداری کے سبب انسان قیامت کے روز اپنی نیکیوں سے محروم ہوکر  دوسرے کے گناہو کا بو جھ بھی اٹھائے گا۔

            اسی طرح ایک حدیث میں ایک عورت کا ذکر آتا ہے جو انتہا درجہ کی عبادت گزارلیکن اپنی بد زبانی اور بد کرداری کی وجہ سے پڑوسیوں کو تنگ کرتی  تھی ،تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ :( لاخیر فيها، هي من أهل النار ) جبکہ آپ کے سامنے ایک دوسری عورت کا تذکرہ ہو ا جو فرائض کی تو پابند تھی لیکن پہلی کی بہ نسبت  نوافل کا اہتمام نہیں کر پاتی ، اور اخلاق وکردار سے لوگوں کو خو ش رکھتی تھی ، تو اللہ کے رسول صلی اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : (هي من أهل الجنة)

 سامعین کرام !  میرے بھائیو اور دوستو!  آپ غور فرمائیں کہ ایک عابدہ و زاہدہ اپنی بد زبانی اور بد کرداری کی وجہ سے جہنمی قرار پاتی ہے،جبکہ اسکے برعکس دوسری عورت جنت کی حقدار ہوتی ہے، ہمیں بھی بد اخلاقی اوربدکرداری سے بچنا چاہئے، کیو نکہ انسانی زندگی پر بد کرداری کے اثرات کچھ یوں مرتب ہوتے ہیں:

(1) بد خلقی اور بد کرداری سے انسان اپنے رب ،سماج ومعاشرہ حتی کہ خاندان اور گھر کے افراد سے بھی دور ہو جاتا ہے۔

(۲) بد کردار ہمیشہ حسرت ویاس ،ندامت وشرمندگی کی زندگی گزارتا ہے ۔

(۳)  بد کردار خوشی ومسرت سے محروم ہوتا ہے اور اس پر اللہ کی لعنت ہوتی ہے ۔

(۴)بد کرداری  سے  محاسن مصائب میں تبدیل ہو جاتے ہیں ۔

(۵)لوگوں کے دلوں میں اس کے خلاف نفرت ہو جاتی ہے۔

 (۶)انسان  ڈپریشن کا مریض ہوکر مجنونانہ زندگی بسر کرتا ہے۔

 سامعین کرام اور میرے بھا ئیو !  اگر ہم اپنی دنیوی واخروی زندگی کو خوشگوار بنانا چاہتے ہیں توہمیں  بد اخلاقی وبدکرداری جیسے شنیع وقبیح عمل سے اجتناب کر کے حسن اخلاق  اور اچھے کردار کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

  اب آخر میں دعاء ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو بداخلاقی وبد کرداری جیسے قبیح عمل سے بچائے آمین

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین

          وصلی اللہ علی النبی  وسلم     

محمد اسلم محمد علی المدنی (فروری ۲۰۱۹)

ترتیب و تنسیق واہتمام: فواد اسلم المحمدی المدنی    (PDF) 

 

اس تقریر کو یہاں سے سنیں

for listen

full-width

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*