میرے فیورٹ رائٹرحافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ اور آپ کی تصنیفات کی عصری معنویت

 

میرے فیورٹ رائٹرحافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

اور آپ کی تصنیفات کی عصری معنویت

 

            علماء کرام کی وفاتوں کا ایک سلسلہ چل پڑاتھا کہ  اچانک ایک دن خبر آئی کہ ہمارے پسندیدہ قلمکار جید عالم دین اور کئی کتابوں کے مصنف،مؤلف  محدث مفسر متکلم اور فقیہ علامہ حافظ صلاح الدین یوسف بھی اس دنیا سے رحلت فرما گئے ۔ آپ کی وفات جن کٹھن ظروف میں ہوئی کہ برصغیر کے علماء اہل حدیث کی ایک بڑی جماعت کی وفات  سے لوگوں میں کرونا کے ڈر سے زیادہ  ان علماء کے فوت ہو جانے سے ایک قسم کی سراسیمگی پھیل رہی تھی اور ان میں سب کے سب تقریباً کبار علماء تھے جن کی وجہ سے ملت اسلامیہ بڑے خسارے سے دوچار ہوئی ہے : قدرالله وماشاء فعل

            حافظ صاحب رحمہ ا للہ سلفیت کے چنندہ مصنفین میں سے ایک بہترین مصنف تھے. تفسیر و حدیث میں مہارت کے ساتھ موجودہ دور کے فتنوں پر آپ کی گہری نظر تھی، آپ ہماری جماعت کے اجلاء اور بزرگ علماء کرام سے خوشہ چینی کرنے والوں میں سے تھے بالخصوص مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ وغیرہ ۔پاکستان ہی کیا بلکہ تمام دنیا کے اردو داں طبقے میں آپ معروف و معتبر تھے، بلکہ اب تو  عرب دنیا میں بھی  آپ کی تحقیقات و تصنیفات منتقل ہو رہی ہیں ۔

            آپ سے میری ملاقات جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ میں اس وقت ہوئی جب آپ عمرہ کی نیت سے مدینہ طیبہ گئے ہوئے تھے، اس ملاقات میں آپ سے ملنے کے لئے اردو داں طلبہ بالکل ٹوٹ پڑے تھے اور جامعہ کا مطعم کے قریب کا ہال پوری طرح بھر گیا تھا. اسی ملاقات میں شیخ نے اپنی آنے والی اس کتاب کے بارے میں بھی  بتایا جو فکر غامدیت کے رد میں ہے، مجھے توقع ہیکہ  ان شاء اللہ یہ کتاب غامدی فتنے پر سابقہ کتابوں سے زیادہ وقیع اور اہم ہوگی درج ذیل اسباب کی بنا پر:

-مصنف کا علمی وتحقیقی میدان میں طول طویل تجربہ اور گمراہیوں کی گرفت میں نمایاں مقام۔

-کتاب و سنت کا اچھا درک اور مہارت، جیسا کہ تفسیر اور حدیث کی شروحاتمیں آپ کا نمایاں مقام ۔

-مذکورہ فتنے کا انکے اردگرد بڑے پیمانے پرانتشار اور رواج۔

            مدینہ یونیورسٹی میں آپ سے ملاقات میرے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہ تھی ، کیونکہ اپنی زندگی میں جو کچھ ٹوٹا پھوٹا یہاں وہاں سے مطالعہ کی توفیق ملی ہے ان میں حافظ صاحب علیہ الرحمہ کی کتابوں کا بڑا حصہ رہا ہے ۔ دراصل آپ کی تصانیف میں ایک طرف  سلاست اور عبارت سنجی ہوتی ہی ایسی ہے کہ پڑھنے والا پڑھتا چلا جائے۔تو دوسری طرف آپ کی تحریریں اپنے اندر  اردو کے کلاسیکل ادباء کا سلوب بھی اپنائے ہوتی ہیں ، اور جہاں تک رہی بات انکی معنویت کی تو اس پر بات کرنے اور  اس ناحیے سے غور و فکر کرنے کی بہت ضرورت ہے ، تاکہ ہم  آپ کی زندگی کے ایک نمایاں اور ابرز پہلو سے کچھ سبق سیکھ سکیں ، کچھ باتیں اخذ کر سکیں ۔

     من جملہ آپ کی تحاریر دو قسموں کی بنتی ہیں ۔ اولاً  :  جو  اصلاحی مضامین پر مشتمل ہوتی ہیں  کہ جس کی امت مسلمہ کو اشد ضرورت ہےکہ اسے وہ تربیت یافتہ افراد مل سکیں جن کے ذریعہ ہمارے اسلاف نے اوج ثریا کو چھوا تھا۔ ثانیاً آپ کی کچھ بڑی تحریریں کسی ایسے فتنے کے رد میں ہوتی ہیں جو لوگوں میں ٹرینڈ کر رہا ہو اور اسکی خطرناکی آنے والے دنوں میں بھیانک ہو نے والی ہو، اور اسکا پوسٹ مارٹم قبل از وقت کرنا ضروری بھی ہوتا ہےکیونکہ  حقیقی عالم وہی ہے جو کسی بھی فتنے کو اس کے اٹھنے سے پہلے بھانپ کر اس کا قلع قمع کرنے کی کوشش کرے۔تاکہ  عوام اسکی رہنمائی میں بڑے سے بڑے فتنے کو جھیل کر بآسانی گزر جائے۔  یہی دو نمایاں جوہر ہیں آپ کی تصانیف میں کہ جس سے ہر داعی کو مزین ہونا نہایت ضروری ہےاور جسکی طرف محدث عصر علامہ محمد ناصرالدین الالبانی رحمہ اللہ نے علماء اور دعاۃ کو دعوت بھی دی ہےاور وہ ہے “التربية والتصفية”۔

اصلاحی اور تربیتی نقطہ نظر سے آپ کا احسن البیان آج ہر اردو داں مسلمان کی ضرورت بن چکا ہے اور جسے ایک بڑے پیمانے پر حرمین شریفین سے چھاپ کر تقسیم بھی کیا جا رہا ہے  تو دوسری طرف آپ کی وہ کتاب  جوامام نووی کی ریاض الصالحین کے ترجمہ اور اہم فوائد پر مشتمل ہے ، اس نے تو گھروں اور مسجدوں کو سنت رسول کا ایسا عمدہ گلدستہ مہیا کر دیا ہیکہ جسے امت کو بڑی ضرورت تھی بالخصوص ان ایام میں کہ جب مسجدوں میں ایک خاص تبلیغی نصاب عوام کو پڑھا پڑھا کر اصل علم قال اللہ و قال الرسول سے کافی دور کر دیاگیا تھا ۔ اسی طرح سے آپ کی کتابوں کی ایک سیریز ہے یا مجموعہ جو صرف حقوق پر مشتمل ہے ۔ اور ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ یہ دور حقوق کی آواز کا دور ہے اور انہیں حقوق حقوق کی آوازوں میں اسلامی حقوق کی حقیقی آواز کہیں دب جاتی ہے اور لوگ چیزوں کے کما حقہ حقوق نہ جان پانے کی صورت میں مختلف اضطرابات کا شکار ہوتے ہیں اور معاشرہ غیرمتوازن شکل اختیار کرجاتا ہے ، تو اس مسئلے پر حافظ صاحب رحمہ اللہ کی مستقل تصنیفات ہیں مختلف حقوق کے تعلق سے۔معاشرتی اصلاحات کے تعلق سے آپ نے شادی بیاہ اور بارات وغیرہ کے رسوم ورواج کو لیکر ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے جو علماء و طلبہ کے لئے یکساں مفید ہے ۔ اور اسی کے قریب ترین ایک مسئلہ تھا مفرور لڑکیوں کے مستقبل کا، تو اس پر بھی آپ نے ایک مختصر اور مفید کتابچہ تصنیف فرمایا ہے۔ اللہ آپ کی ان تمام خدمات  کو قبول عام نصیب فرمائے۔

            یہ تھے چند سطور آپکی اصلاحی و تربیتی تصانیف سے متعلق، رہی آپ کی وہ تصانیف جن کا تعلق تصفیہ سے ہےتو اس باب میں ایک عظیم الشان کارنامہ جو شیخ کے حصے میں آیا  کہ اس امت پہ لادا ہوا  مولانا سید ابوالاعلی مودودی صاحب کا ایک قرض جسے آپ نے بخوبی ادا کر دیا، مولانا مودودی نے جب خلافت و ملوکیت لکھی تو کئی مکاتب فکر کے کئی علماء نے اس کا رد کیا لیکن آپ کی کتاب “خلافت و ملوکیت : تاریخی و شرعی حیثیت” جب سامنے آئی تو اس نےایک طرف تو  پورے موضوع کو کور کیا تو دوسری طرف مودودی صاحب کی کتاب کو ڈھانپ دیا اپنے نام سے بھی اور کام سے بھی، اس کتاب میں جسے شیخ نے عنفوانِ شباب میں لکھا تھا مودودی صاحب کی اور انکی اس کتاب کی ہر فکر کا جواب دیا بلکہ اس کے ہر چیپٹر اور ہر باب اور ہر صفحے کا جواب دیا حتی کہ بین السطور میں ڈالی گئی غلاظت اور ناموس صحابہ پر اٹھنے اور محسوس ہونے والے ہر جرأت کا جواب پورے علمی وتحقیقی جرأت سے دیا۔ لیکن کہیں بھی اسلوب اور شائستگی سے سمجھوتہ نہیں کیا جبکہ یہ اس عمر کی بات ہے جب لوگوں کی زبانیں سلاست تو کجا سلامت بھی نہیں رہتی ہیں۔ دوسرا فتنہ جب اٹھا کہ آپ پیرانہ سالی کی عمر میں داخل ہو چکے تھے اور لوگوں میں مودودی صاحب کی تحریکی فکر کے ردعمل میں یا کسی خارجی اسباب  وعوامل کی بناء پر ”فکر غامدیت“ نے پیر پسارنا شروع کردیا تھا تو آپ رحمہ اللہ نے اس کی بھی خیریت معلوم کی اور بہترین رد پیش کیا ۔ فلله الحمد

ان دونوں فتنوں کا رد شیخ کی جانب سے نکلنا جہاں ایک متوازن شخصیت کی دلیل ہے وہیں آپ کی فکر کے سلیم ہونے اور آراء و افکار کے معتدل ہونے کا پتا دیتا ہے.  گویا آپ اس لمبے علمی وتحقیقی سفر میں افراط و تفریط اور غلو و جفا سے دور رہے ،بلکہ گمرہی کی ان دو انتہاووں کا رد بھی کیا اور یہی حق کی پہچان ہوتی ہے کہ وہ وسط میں ہوتا ہے۔ 

یہ تھے چند سطور جو میرے سب سے پسندیدہ مصنف کے لئے قدرے عجلت میں رقم ہوسکے ورنہ ان کی ایک ایک تصنیف کو لیکر اس پر بات کرنا اور پھر آپ کے تحقیقی منہج پر کچھ روشنی ڈالنا ہزاروں صفحات کا متقاضی ہے ۔

اللہ رب العالمین آپ کی تمام خدمات کو قبول عام نصیب فرمائے، اور ہمیں آپ کے صحیح افکار و نظریات کا سچا وارث اور ناشر بنائے۔

اللهم اغفر له وارحمه ولا تضلنا بعده

فواد اسلم المحمدی المدنی( ۰۷؍ ستمبر۲۰۲۰ء)

ہمارے اس چینل کو سبسکرائب SUBSCRIBE کریں! 

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*