ردّ الحاد پہ علماء نے خاطر خواہ کام کیا ہے اس فتنے کے حجم کے لحاظ سے ، کیونکہ تاریخ میں یہ کوئی بہت بڑا مسئلہ رہا ہی نہیں ہے اگرچہ اس دور جدید میں اس فتنے کی سرپرستی کافی بڑے پیمانے پر ہو رہی ہے ، پھر بھی یہ برابر نامعقول اور بے دلیل سا ایک ”کچوکا“ رہا ہے جو دلائل سے زیادہ نفسانی عواطف کے قریب نظر آتا ہے ۔
گزشتہ دنوں مدینہ یونیورسٹی میں جمعیۃ العقیدہ کے تحت مرکز یقین نے الحاد پر کچھ دورات کا انعقاد کیا جس میں سویڈن کے ایک نو مسلم داعی نے بتایا کہ الحاد کے کئی اسباب ہیں۔ موصوف نے ان میں سے تقریباً نوے فیصد اسباب کے ساتھ”غیر منطقی“ کا لاحقہ ضرور لگایا۔ دورے میں شریک بعض طلبہ نے سوال کیا کہ جب اتنے سارے اسباب غیر منطقی ہیں تو یہ فکر آخر کیونکر چل پا رہی ہے؟ تو انھوں نے بتایا کہ دراصل الحاد فی نفسہ ایک غیر منطقی بات ہےلیکن نفس پرستوں کا عروج ہے تو الحاد کا بھی فروغ بظاہر دکھایا جارہا ہے ۔
الحاد کی ابتداء سےایک لامنطقیت یہ رہی ہے کہ” ہم اہل ادیان اور کلیسا کے خون خرابہ اور باہمی مارکاٹ سے متنفر ہو کر لادینیت کی طرف آئے ہیں“ ۔لیکن اس میں ایک نا معقول بات یہ ہےکہ ابتداء الحاد کے سرخیل ایک بڑی تعداد میں کلیسا سے قسیس حضرات ہی تھے یا کچھ فلاسفہ ، اور جہاں تک رہی بات مار کاٹ کی تو یہاں بھی لامنطقیت اور نا معقولیت کا ایک پریکٹیکل دیکھنے کو ملا کہ جب یہ لوگ بیسویں صدی عیسوی کے اندر اقتدار میں آئے تو یورپ میں ایسا خون بہا یا کہ دنیا میں ویسا خون کبھی نہ بہا تھا ، چاہے دونوں جنگ عظیموں میں کروڑوں جانوں کا اتلاف ہو یا مارکسی شیوعیت کے دور میں ریاستوں کی ریاستیں تباہ ہوئی ہوں یا پھر سرد جنگ کے نام پر جو کچھ تباہیاں وجود میں آئی ہوں وہ سب ۔
ان نامعقولیتوں اور بے بیجا عواطف کی باتوں میں اکثر شباب اور کم عمر لوگ پھنستے ہیں ، اور اس لئے پھنستے ہیں کہ جہاں الحاد تمام تر اسباب و آلات سے لیس ہے وہیں ہمارے اپنے اندر اسباب کا پورا فقدان ہے اور حا ل یہ ہیکہ اپنے دین کے جو محاسن اور دلائل نبوت کل تک غیروں کے دل و دماغ کو پرزور اپیل کرتے تھے آج انہیں تمام محاسن و دلائل سے خود ہمارے بچے نا واقف ونابلد ہیں لہذا ہم اپنے نونہالوں کو ابھی سے پکڑیں اور ہمارے وہ مکاتب جو تعلیم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے انہیں بچائیں یا مزید اور فعّال بنائیں۔ ( فواد اسلم المدنی )