درج بالا تحریر کا اگلا حصہ پچھلے حصے کے مناقض و معارض ہے۔شروع میں مدارس کو زکات سے باہر رکھا گیا اور بعد میں مدارس کو زکات کا بہت زیادہ مستحق بتایا گیا ہے۔ دینی مدارس زکات کے کتنا مستحق ہیں کتنا نہیں اور موجودہ دور کے دیگر اسلامی مراکز و اعمال کتنا مستحق ہیں یا نہیں اور کن میں زکات خرچ کرنا زیادہ مصلحت کے قریب ہے اور کس میں خرچ کرنا مصلحت کے قریب نہیں ہے یہ وہ چیزیں ہیں جن پہ اہل علم بات کرتے رہیں اور گراؤنڈ رپورٹ کی حد تک دراسہ بھی ہو جو بالکل میدانی اور موضوعی دراسہ ہو تاکہ صحیح مال صحیح جہت تک پہونچ سکے تمام شرعی ضوابط کی روشنی میں۔ سردست درج بالا مضمون میں دعوہ سیںٹر یا مدرسہ ؟ کس کو ملے زکات؟ اس طرح کی دو ٹوک بات ہے نہیں بلکہ مدارس کو زکات کی بوری میں ایسے ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ بس اللہ کی پناہ تو یہیں سے یاد آیا مدرسوں سے نکلنے والا مہر بند مسکین اور فقر و مسکنت کی تصویر جسے لوگ طولبہ یا میاں مولوی کہتے ہیں اور اب اپنے یہاں یہ مان لیا گیا ہے کہ میاں مولوی کمزور ہی رہیں کمزور ہی دکھیں بابھنوں اور سادھووں کی طرح بھیک مانگ کر کھائیں اور پھٹے چتھڑے حال رہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔یہی سب کچھ یہاں برادران وطن سے ہم نے اپنے تخلف اور جہالت و تصوف زدگی کی وجہ سے سیکھا ہے اور اسی میل خوری اور پھٹے پن کو دلائل دیکر عین اسلام ثابت کیا جانا کتنی گندی بات ہے؟! آخر کہاں گئی ہمارے اسلاف کے علماء کرام و ائمہ عظام کی خودداریاں : امام سفیان ثوری کی نصیحت، امام احمد کی شاہی زر و جواہرات سے دوری اور کتنے ہی محدثین کا اپنے گھروں کا اثاثہ و شہتیر تک بیچ کر پڑھنے کے واقعات ۔
ہم آخر کس جہت میں جا رہے ہیں؟
اس ملک میں اپنا دین سمجھ کر بھیک مانگنے والے کئی سادھووں نے آج کی تاریخ میں کئی ایکڑ کی زمین پر اپنے آشرم کھول رکھے ہیں جہاں کچھ آشرموں میں لوگوں کو گمراہ کرنے، کرائم کا اڈہ بنانے اور نت نئے خرافات و شرکیات کے پھیلاؤ کیلئے بڑی بڑی کمپنیاں ساتھ دے رہی ہیں اور ہم ہیں کہ بیچارے زکات خوری کے اتاولے اپنی قوم کے ایلیٹ ، امت کے معمار اور کریم و نونہال طبقے کو “اوساخ الناس” کھلوانے پر تلے ہیں ۔کیا ہو گیا ہے بھائی؟
کہیں ہمارے اندر کا آٹھا دس سال کا زکات تو نہیں بول رہا ہے۔اور جیسا کہ مال کا اثر انسان کے اوپر بھی ہوتا ہے تو یہی وجہ ہے کہ مدرسوں میں بغیر کسی مستحق و غیر مستحق کی تمییز کے لوگ نان اسٹاپ زکات کھاتے رہے اور جب صدائے حق کی باری آتی ہے تو عوام کا منہ دیکھنے لگتے ہیں ، سائل کی منشا چیک کرکے فتوی دیتے ہیں اور نہ جانے کیسی کیسی دم گھنٹنے والی اور گلا گھونٹ دینے والی حرکتیں سرزد ہوتی ہیں ۔ اللہ المستعان
کاش آپ خودداری اور ما فی ایدی الناس سے زھد کا درس دیتے۔
اے کاش! آپ فیس دیکر پڑھنے کو بڑھاوا دیتے کہ کل فراغت کے بعد وہ عالم اپنے باپ اور گھر والوں کے خرچے کی قدر کرتا اور دینی تعلیم حاصل کرکے کسی اور راہ پہ نہ لگ جاتا ۔ اے کاش!!!حالت تو یہ ہیکہ مفت خوری اور سہولت پسندی میں آدمی بخاری مسلم مدرسے کی لائبریری سے نکال کے پڑھ لیتا ہے امتحان دیدیتا ہے اور جمع کراکے گھر چلا جاتا ہے پھر تا حیات اسے وہ امہات الکتب لینے اور حاصل کرنے کی توفیق نہیں ملتی ہے ۔اگر مان بھی لیں کہ بائی چانس آپ نے زکات کھا کر اتنی تعلیم حاصل کرلی ہے تو اسے اصل نہ سمجھیں، بلکہ وہ ایک مجبوری تھی ۔ اس چانس کو کل اپنے بچوں کے لئے چوائس کی چیز نہ بنائیں اور یہ نہ کہیں کہ دیکھ بیٹا مجھے جو کچھ عزت وغیرہ ملی ہے وہ اسی زکات کھانے کی وجہ سے ملی ہے لہذا تو بھی زکات کھا کر بڑا ہو ۔ ہرگز نہیں
کاش ہمارے علماء و طلبہ کی بری معاشی حالت پہ بات کرتے ۔ اسے مزید اور بری نہ بناتے کہ کسی مولوی یا عالم کی شکل آج ہندوستان میں دیکھ کر لوگ بلا کسی تعارف کے بھیک منگا یا فقیر نہ سمجھ بیٹھیں انہیں تجارت وغیرہ کی فضیلت اور کتاب البیوع کے کچھ دروس دیتے تاکہ وہ بھی اپنی خود داری کے ساتھ دین کے کام میں لگیں اور تا حیات کسی کے منّ وأذى کو جھیلنے کی نوبت نہ آئے اور نہ ہی زکات خور بنیں کہ بعد میں اسی مال سے اپنی سلطنت بھی کھڑے کرنے کے فراق میں ہو جائیں۔{ یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ لَا تَأۡكُلُوۤا۟ أَمۡوَ ٰلَكُم بَیۡنَكُم بِٱلۡبَـٰطِلِ إِلَّاۤ أَن تَكُونَ تِجَـٰرَةً عَن تَرَاضࣲ مِّنكُمۡۚ وَلَا تَقۡتُلُوۤا۟ أَنفُسَكُمۡۚ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ بِكُمۡ رَحِیمࣰا (29) وَمَن یَفۡعَلۡ ذَ ٰلِكَ عُدۡوَ ٰنࣰا وَظُلۡمࣰا فَسَوۡفَ نُصۡلِیهِ نَارࣰاۚ وَكَانَ ذَ ٰلِكَ عَلَى ٱللَّهِ یَسِیرًا (30) }[Surah An-Nisāʾ: 29-30]