برائیوں پر تقدیر کا حوالہ اور قسمت کو کوستے رہنا شریعتِ اسلامیہ کی نظر میں

برائیوں پر تقدیر سے دلیل پکڑنا

انسان کی زندگی میں برائیاں قبائح و مظالم برابر انجام پاتے رہتےہیں ،جو مکمل طور سے آدمی کے اپنے کرتوتوں کا نتیجہ ہوتے ہیں جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے:

وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ ‎﴿الشوری:٣٠﴾

ترجمہ: تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وه تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوت کابدلہ ہے، اور وه تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما دیتا ہے۔

‏یہی وجہ ہے کہ  برائیوں کو  کوئی عقلمند انسان  تقدیر کا لکھا مان کرمطمئن ہو کر نہیں بیٹھ جاتا ہے بلکہ وہ ہمیشہ اس کے تدارک کا خیال کرتارہتا ہے۔

اس تعلق سے کچھ  بیکارو بیمار قسم کے سوالات ہوتے ہیں جیسے :

-برائی کو کیوں تقدیر میں لکھا گیا ؟

-ہم تو تقدیر کے ہاتھوں مجبور تھے ،پھر کسی برائی سے کیونکر بچ پاتے ؟

-یا ہماری قسمت میں جب یہی لکھا تھا تو ہوا،   اب ہم اس میں کیا کر سکتے ہیں؟  وغیرہ ۔

تو ایسے سوالات بعض ہوا پرست ملحدین یا کم عقل جاہل و معاندین اٹھاتے ہوئے پائے گئے ہیں ۔

لیکن کسی عقلمند سے ایسی باتوں کا صدور یا تو اس کی انتہائی پرلے درجے کی مجبوری کو درشاتا ہے جو تقدیر کے پر اسرار پردے میں چھپ کر خود کو غائب کرنے کی کوئی شترمرغی چال چل رہا ہے  یا پھر اس کے پیچھے ہوا پرستی کا شاطر دماغ کام کر رہا ہے ۔

تقدیر اور قسمت سے حجت پکڑنے والے افکار ،عموما گاؤں دیہات کے دور دراز علاقوں میں دین و تعلیم سے دور لوگوں میں کسی حد تک پایا جاتا ہے اور ان میں بھی بالخصوص نکھٹو ، نکمے،کام چور، جنگرچور،سستڑ، عیاش مزاج نوجوانوں اور نوخیز عمر کے لوگوں میں پایا جاتا ہے اور  ایسے ہی بعض  بوڑھیاں اراذل عمر کی شکارجاہل  عورتوں میں بھی دیکھا گیا ہے ۔ جیسا کہ بعض ظالمین و جابرین  اور اپنی طاقت و قوت کے نشے میں چور لوگوں نے بھی تاریخ کے مختلف ادوار میں تقدیر سے دلیل پکڑی ہے اور اپنے مظالم و قبائح کو جسٹیفائی کیا ہے۔ لہذا یہ عمل کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے ، چاہے شرعی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے یا عقلی طور پر سمجھا جائے۔

عقلی طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم کو جب ہمارے رب نے شرع کا پابند بنایا ہے تو ہم شریعت کی کتاب کو ہی اپنا نصب العین بنائیں ۔ کیا ضرورت ہے قسمت اور تقدیر کی کتاب میں تانک جھانک کرنے کی جو کہ ہمارے بس میں ہی نہیں ہے ۔

اور اس غیرذمہ دارانہ ، بیوقوفانہ، بزدلانہ اور مضحکہ خیز رویےکی تاریخی طور پر کوئی اصل ،جڑ، یا کوئی بنیاد تلاش کرنے چلیں تو یہاں بھی ہمیں کتاب اللہ کتابِ ہدایت قرآن کریم ،ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ انبیاء کرام کو جھٹلانے والے مشرکین چاہے وہ متقدمین کفار و مشرکین ہوں یا متأخرین سبھوں نے اسی طریقے پر انبیاء  کرام کو جھٹلایا ہے اور اپنی کفریات و شرکیات اور حرام خوری پر تقدیر اور قسمت سے استدلال کیا ہےاور ایک بیہودہ اور کمزور حجت پیش کی ہے۔

﴿ سَيَقُولُ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ كَذَلِكَ كَذَّبَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ حَتَّى ذَاقُوا بَأْسَنَا  ﴾ (الأنعام : 148) 

ترجمہ: ”یہ مشرکین(یوں) کہیں گے کہ اگر اللہ کو منظور ہوتا تو نہ ہم شرک کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم کسی چیز کو حرام کہہ سکتے،اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے ہوچکے ہیں انہوں نے بھی تکذیب کی تھی یہاں تک کہ انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھا ‘‘۔

ایک دوسری جگہ بھی اللہ تعالی نے مشرکین کا یہ قول نقل کیا ہے اور بتایا کہ ان کی یہ ابلیسی  حجت محض اٹکل پچو ہی ہے، اس بات کا علم و دلیل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

وَقَالُوا لَوْ شَاءَ الرَّحْمَٰنُ مَا عَبَدْنَاهُم ۗ مَّا لَهُم بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُونَ ‎﴿الزخرف:٢٠﴾

حالانکہ بعض لوگوں نے تقدیر سے حجت پکڑنے والا پہلا شخص ابلیس کو قرار دیا ہے اس آیت کریمہ کی بنیاد پر [ قَالَ رَبِّ بِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأُزَيِّنَنَّ لَهُمْ فِي الْأَرْضِ وَلَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ] ‎﴿الحجر:٣٩﴾ ترجمہ : (ابلیس نے) کہا کہ اے میرے رب! چونکہ تو نے مجھے گمراه کیا ہے مجھے بھی قسم ہے کہ میں بھی زمین میں ان کے لئے معاصی کو مزین کروں گا اور ان سب کو بہکاؤں گا بھی۔ ۔ ۔ ۔ اس میں کچھ تعجب نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ برائی کا کونسا ایسا سرچشمہ ہے جسے جاری کرنے والا ابلیس نہ ہو،لہذا لوگوں کو ایسے ابلیسی کاموں سے باز رینا چاہیئے۔

شریعت کی روسے مسئلہ کی وضاحت 

(1) تقدیر پر ایمان لانا اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے جو تمام انبیاء کرام کے یہاں لازمی تھا  اور ہمارے دین اسلام میں یہ  ارکان ایمان میں سے ایک اہم رکن ہے جس کے بغیر کسی آدمی کا نہ تو اسلام صحیح ہوگا اور نہ ہی وہ ایمان میں داخل ہوگا۔ بلکہ ایسا شخص جو تقدیر کا انکار کرے وہ کافر ہوگا جسے بعض احادیث میں مجوسی بھی کہا گیا ہے۔

قرآن کریم سےبعض  دلائل اس بات پر کہ قضاء و قدر ایک ثابت شدہ امر ہے۔

جیسے کہ ارشاد ربانی تعالى ہے : {إنا كل شيء خلقناه بقدر} (القمر:49)

ترجمہ :بیشک ہم نے ہر چیز کو ایک (مقرره) اندازے پر پیدا کیا ہے.

{وخلق كل شيء فقدره تقديرا} (الفرقان :2)

ترجمہ : اور ہر چیز کو اس نے پیدا کرکے ایک مناسب اندازه ٹھہرا دیا ہے.

{ ما أصاب من مصيبة في الأرض ولا في أنفسكم إلا في كتاب من قبل أن نبرأها إن ذلك على الله يسير} (الحديد:22)

ترجمہ : نہ کوئی مصیبت دنیا میں آتی ہے نہ (خاص) تمہاری جانوں میں، مگر اس سے پہلے کہ ہم اس کو پیدا کریں وه ایک خاص کتاب میں لکھی ہوئی ہے، یہ (کام) اللہ تعالیٰ پر (بالکل) آسان ہے.

{وإن تصبهم حسنة يقولوا هذه من عند الله وإن تصبهم سيئة يقولوا هذه من عندك قل كل من عند الله فمال هؤلاء القوم لا يكادون يفقهون حديثا} (النساء:87)

ترجمہ: اور اگر انہیں کوئی بھلائی ملتی ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اگر کوئی برائی پہنچتی ہے تو کہہ اٹھتے ہیں کہ یہ تیری طرف سے ہے۔ انہیں کہہ دو کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ انہیں کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات سمجھنے کے بھی قریب نہیں۔

کیا بہترین بات ہیکہ تقدیر کے جو چار مراتب ہیں

العلم .

الکتابة .

المشيئة .

الخلق .

ان سب کی دلیل قرآن کریم میں موجود ہے۔

تقدير پر ایمان کے وجوب کی سنت سے دلیلیں۔

۱۔ حدیث جبرئیل

((أن تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره)) (متفق عليه)

خلاصہ یہ کہ : ایمان کے چھ ارکان ذکر کرتے ہوئے تقدیر کے لئے علاحدہ سے ایمان کا لفظ مستقل طور پر استعمال کیا گیا تقدیر کی اہمیت کے مدنظر

٢۔ عن أبي الدرداء رضي الله عنه، أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: (لا يدخل الجنة عاق، ولا مكذب بقدر، ولا مدمن خمر) رواه أحمد

خلاصہ : تقدیر کو جھٹلانے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا

۳۔ إن مجوس هذه الأمة المكذبون بأقدار الله، إن مرضوا فلا تعودوهم، وإن ماتوا فلا تشهدوهم، وإن لقيتموهم فلا تسلموا عليهم) رواه أبو داود وابن ماجة.

خلاصہ : تقدیر کے انکاری اس امت کے مجوسی لوگ ہیں ان سے کوئی تعلق نہ رکھا جائے

۴۔ ولو أنفقت مثل أحد ذهبا في سبيل الله ما قبله الله منك حتى تؤمن بالقدر، وتعلم أن ما أصابك لم يكن ليخطئك، وأن ما أخطأك لم يكن ليصيبك، ولو مت على غير هذا لدخلت النار) رواه أبو داود.

خلاصہ : خواہ تم کتنی بھی نیکی کر لو صدقہ و خیرات دے لو وہ کبھی قابل قبول نہیں ہوگی جب تک کہ تم تقدیر پہ ایمان نہ لے آؤ٬ ورنہ جہنم میں جانا ہوگا۔

 درج بالا  آیات اور احادیث سے واضح ہوجاتا ہے کہ اول نمبر پہ  تقدیر کی کلی طور سے تصدیق کرنا اور اس پر ایمان لانا ہم پر واجب ہو گیا ہے  اور یہ ایمان رکھنا بھی واجب ہیکہ اللہ سبحانہ و تعالی نےزمین و آسمان کی پیدائش سے پچاس ہزار سال قبل ہی  ہر چھوٹی بڑی چیز  تقدیر میں لکھ رکھا ہے ،اس سے کوئی بھی چیز ادھر سے ادھر نہیں ہو سکتی ہے چاہے کوئی انسان کتنا ہی زور کیوں نہ لگا لے حتی کہ جنتیوں کا جنت میں مقام اور جہنمیوں کی جہنم میں جگہیں  بھی بالکل فکس ہو چکی ہیں۔ یہی عقیدہ صحابہ کرام اپنے بچوں کو  سکھایا کرتے تھے جیسا کہ حضرت عبادہ بن صامت کی اس حدیث سے واضح ہوتا ہے، فرماتے ہیں:

يا بُنَيَّ، إنَّك لن تَجِدَ طَعمَ حقيقةِ الإيمانِ حتى تعلَمَ أنَّ ما أصابَك لم يكُنْ لِيُخْطِئَك، وما أخطَأَك لم يكُنْ لِيُصيبَك، سَمِعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يقولُ: إنَّ أولَ ما خلق اللهُ القلمُ، فقال لهُ : اكتبْ، قال : ربِّ وماذا أكتبُ ؟ قال : اكتُبْ مقاديرَ كلِّ شيءٍ حتى تقومَ الساعةُ. يا بنيَّ إني سمعتُ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّمَ يقول : من مات على غيرِ هذا فليسَ مِني .
ترجمہ : اے میرے پیارے بیٹے! تو ایمان کی حقیقی لذت کو کبھی نہیں پا سکتا ہے جب تک کہ تو یہ نہ جان لے کہ تجھے جو کچھ ملا ہے وہ تجھ سے کبھی خطا کرنے والا نہیں تھا اور جو کچھ تجھ سے خطا کر گیا ہے یا نہیں ملا ہے وہ تجھے ملنے ہی ولا نہیں تھا،      میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہیکہ :  ’’بے شک اللہ تعالی نے سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا اور اس سے کہا کہ تو لکھ!  اس نے کہا کہ : اے میرے رب! میں کیا لکھوں؟ اللہ تعالی نے فرمایا :      قیامت تک ہونے تمام چیزوں کی تقدیریں لکھ ڈالو‘‘۔         اے میرے پیارے بیٹے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہیکہ : ’’جوکوئی بھی شخص اس عقیدے کے علاوہ کسی دوسرے عقیدے پر مر گیا تو اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے ‘‘ ۔
الراوي : عبادة بن الصامت | المحدث : الألباني | المصدر : صحيح أبي داود
الصفحة أو الرقم: 4700 | خلاصة حكم المحدث : صحيح
التخريج : أخرجه أبو داود (4700) واللفظ له، والترمذي (3319)، وأحمد (22705) بنحوه   (بحوالہ : الدرر السنیة)

یہی عقیدہ آج ہمیں بھی اپنانے کی ضرورت ہےایسے ہی جیسے ہم دیگر غیبیات پر بلا چوں چرا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ تب ہی ہماری نجات ممکن ہے اور ہم دنیا میں بھی قضاء و قدر پر ایمان کامل کے مختلف فوائد سے مستفیظ اور بہرہ مند ہو سکتے ہیں۔

(2) اب دوسری بات ہم پر یہ عائد ہوتی ہیکہ تقدیر کے مسئلے میں ہر طرح کے قیل و قال اور کثرتِ سوال اور چھیڑ چھاڑ سے بچیں، کیونکہ اسے علماء کرام نے  “سر اللہ المکتوم” یا’’ القدر سر الله  في خلقه ‘‘جیسے الفاظ سے تعبیر کیا ہے، یعنی یہ اللہ تعالی کا پوشیدہ راز ہے ، لہذا اللہ کے راز سے چھیڑ چھاڑ کرنا یعنی بیجا غور و خوض کرنا ، اسکی ٹوہ میں لگنا اور بحث کرنا جائز نہیں ہے۔اور کوئی اس تقدیر پر سوال کیسے کر سکتا ہے جبکہ اسے علم ہی نہیں ہے کہ اللہ نے  قسمت کی کتاب میں کیا  لکھ رکھا ہے ، اسے اس کا پتہ تب چلتا ہے جب وہ اپنے اختیار اور اپنی مرضی سے کوئی کام کر گزرتا ہے۔لہذا اس بارے میں کچھ بھی قیل و قال کرنا بیجا نظر و تعمق استعمال کرنا انسان کو طغیان میں مبتلاکر سکتا ہے اور اس سے وہ بے سہارا اللہ سے دور اور چڑچڑھا مزاج کا ہو کر ہلاک و برباد ہو سکتا ہے۔

جیسا کہ سنن الترمذی میں ہیکہ

“عن أبي هريرة قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌ونحن ‌نتنازع ‌في ‌القدر فغضب حتى احمر وجهه، حتى كأنما فقئ في وجنتيه الرمان، فقال: «أبهذا أمرتم أم بهذا أرسلت إليكم؟ إنما هلك من كان قبلكم حين تنازعوا في هذا الأمر، عزمت عليكم ألا تتنازعوا فيه».” (ابواب القدر،‌‌باب ما جاء في التشديد في الخوض في القدر،(ترمذي : 2133 ، تخريج مشكاة المصابيح (الألباني) : 95(حسن))

ترجمہ : حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ (ایک دن) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے، اس وقت ہم سب تقدیر کے مسئلہ میں بحث و مباحثہ کررہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوگئے یہاں تک کہ آپ کا چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور ایسا نظر آنے لگا گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گالوں پر انارکے دانے نچوڑدئیے گئے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں اسی کا حکم دیا گیا ہے، یا میں اسی واسطے تمہاری طرف نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں؟ بے شک تم سے پہلی امتیں ہلاک ہو گئیں جب انہوں نے اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ کیا، میں تمہیں قسم دلاتا ہوں کہ اس مسئلہ میں بحث و مباحثہ نہ کرو۔

اسی مفہوم کی ایک دوسری حدیث بھی موجود ہے کہ جب کبھی تقدیر کا ذکر چھڑے تو اپنی زبان بند کر لیا کرو۔

عن ابن مسعود أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : ( إذا ذُكر أصحابي فأمسكوا ، وإذا ذكرت النجوم فأمسكوا، وإذا ذكر القدر فأمسكوا ) . رواه الطبراني في “الكبير” (2 / 96) . والحديث : صححه الشيخ الألباني في “السلسلة الصحيحة” ( 34 ) . 

ان احادیث سےجہاں یہ ثابت ہوتا ہیکہ تقدیر کے مسئلے میں بحث تکرار ، جھگڑا اور قیل و قال نہیں کرنا چاہیئے   وہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہیکہ اپنی برائیوں پر ہر وقت قسمت کو ہی کوسنا اور اپنے اعمال کیلئے بلاوجہ تقدیر سے دلیل پکڑنا جائز نہیں ہےکیونکہ ایسے حالات میں تقدیر کا سہارا لیکر دراصل انسان خود کو نیک ، محنتی اور مکمل ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے اور تقدیر کو ہی برا ، ناقص اور ظالم کہہ رہا ہوتا ہے، بلکہ کچھ سیانے تو اپنے سامنے موجود حق بجانب لوگوں کا حق مار کر انہیں اسی تقدیر اور قسمت کے استدلال سے خاموش کرا دیتے ہیں اور بیچارہ حقدار اپنا حق بھول کر تقدیر کے نام کو سنتے ہی خاموش ہو جاتا ہےجبکہ سماج اور معاشرے میں موجود علماء و طلباء کو اس جانب زیادہ سے زیادہ لوگوں کی توجہ مبذول کرانا چاہیئےتا کہ تقدیر کا یہ بیجا استدلال(یا استعمال) بند ہو سکے اور لوگ موضوعی و واقعی اور محنتی بن سکیں۔

تقدیراور قسمت کا سہارا لینے والے ایک چور کو سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کانپا تلا اور سٹیک  جواب:

ایک مرتبہ امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضي الله عنه کے پاس ایک چور لایا گیا جس کا انہوں نے ہاتھ کاٹنے کاحکم دیا۔ چورنے عرض کیا: امیرالمومنین! ذرا ٹھہر جائیں‘ اللہ کی قسم !میں نے قضاء وقدر کے مطابق چوری کی ہے ، وہ سچ بول رہا تھا، لیکن حضرت عمررضي الله عنه کے سامنے ایسی حجت قابل قبول نہ ہوئی،آپ نے برجستہ کہا: ”ہم قضاء وقدر کے تحت ہی تمہارا ہاتھ کاٹ رہے ہیں“۔ پھر اس کا ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا ایسا ہی بے بانگ دہل جواب اس وقت بھی تھا جب لوگ طاعونِ عمواس کی سرزمین سے باہر نکلنے اور نہ نکلنے پر اخلاف کر رہے تھے ، ایل جماعت کا کہنا تھا کہ کیا ہم اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں تو آپ نے فرمایا تھا : ” نفر من قدر الله إلى قدر الله ”  مطلب یہ کہ ہم اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اللہ کی تقدیر کی ہی طرف جا رہے ہیں

(3) تقدیر سے احتجاج کرنے والوں کی نبوی رہنمائی:۔

     ۩:عمل کو ترک کرنے کی ممانعت

 ۩:         درستگی کے ساتھ عمل جاری رکھنے کی ترغیب

توحید کا نظام تقدیر پر ایمان:۔ توحید کے تقاضوں میں سے ایک بات یہ بھی جان لینا چاہیئے کہ دنیا کے اندر جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب اللہ کی مرضی اور اسکے حکم سے ہو رہا ہے گویا کہ دراصل اس کائنات کا فاعل حقیقی اللہ رب العالمین کی ذات ہےجیسا کہ رب نے  فرمایا : فعال لما یرید ۔[  اگر چہ برائیوں ، گندگیوں اور شرور  کی نسبت ہم اللہ رب العالمین کی طرف نہیں کرتے ہیں۔] تو ایسے ہی بندوں کے جو اعمال ہیں ان کابھی خالق اللہ تعالی ہی ہے لیکن اس نے انسانوں کو ان کے افعال اختیار کرنے کی آزادی دے رکھی ہے، یہی وجہ ہیکہ ’’أفعال العباد‘‘ کے بارے ہمارا یہ عقیدہ ہیکہ اللہ تعالی  خالق ِ فعل ہے جبکہ بندہ فاعلِ فعل ہے ، اس لطیف سے فرق کو جو نہ سمجھ سکیں وہ بسا اوقات بڑی گمرہی میں پڑ سکتے ہیں ،اسی میں سے ایک پہلو یہ بھی ہیکہ انسان اپنے افعال پر اتنا شاداں و فرحاں  اور نازاں نہ ہو جائے کہ اپنی نجات کا واحد ذریعہ اپنے اعمال کو سجھنے لگ جائے، لہذا  اسے اس غلط فہمی سے روکنا ضروری ہو جا تا ہے، کیونکہ توحید کے مسائل میں جب یہ حساسیت ختم ہوتی ہے تو کئی ایک مسائل ہیں جن میں دھڑادھڑ شرک داخل ہونے لگتا ہے، کبھی تو یہ شرک اصغر تک رہتا ہے مثلاکسی معاملے میں اللہ کی خصوصیات کے ساتھ بندوں کی خصوصیت ذکر کردی جائیں حانکہ اصل سببِ حقیقی اللہ کوہی مانا جائےتو کبھی یہ شرک اصغر ہوتا ہے اور کبھی یہ شرک اکبر تک پہونچ جاتا ہے، لیکن جب کبھی بندوں کے قدم فرطِ عقیدت میں ڈگمگائیں  اور سببِ اصلی کو اللہ کے بجائے کسی اور کو مانا جائے  تو بات ربوبیت میں شرک تک پہونچ جاتی ہےیہی وجہ ہے کہ تقدیر کے مسئلے میں کسی انسان کو اپنے اعمال پہ فخر نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ آخر کار نجات دینے والی ذات تو محض اللہ کی اکیلی ذات ہے۔ اب یہیں سے ہم سلف صالحین کی اس بات کو بھی سمجھ سکتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ تقدیر پہ ایمان ہی توحید کا نظام ہے جیسا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : “الإيمان بالقدر نظام التوحيد”؛ لہذا تقدیر پر کما حقہ ایمان اللہ کی توحید ربوبیت و الوہیت کو منظم اور مستحکم بناتا ہے۔اس جانب بھی خصوصی اہتمام کی درکار ہے جس کے لئےشاید ہی اردو میں کوئی مستقل کتاب مل سکے۔إلا أن يشاء الله

ایک نکتہ : بس یہاں ایک لطیف نکتہ شامل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے، وہ یہ کہ :۔      پہلے کے لوگ كس قدر اعلی دماغ والے انسان ہوا کرتے تھے کہ اگر  انہیں تقدیر کا کوئی مسئلہ  مشکل میں ڈالتا يا وه تقدير کے کسی فیصلے کے سامنے عاجز ہوجاتے تو وہ اس کے ذریعہ سے غور و فکر کرکے اپنے رب کی معرفت حاصل کرلیتے تھے اور کہتے تھے کہ “عرفتُ ربي بفسخ العزائمِ” اور یہیں سے ان کی توحید ربوبیت اور نتیجتا توحیدِ الوہیت بھی مضبوط ہو جایا کرتی تھی لیکن آج کے کمزور عقل والے اور بے پرواہ لوگوں کا حال دیکھو کہ جب انہیں اللہ کے دین سے باہر نکلنا ہوتا ہے یا اللہ کی توحید سے ہی اپنا دامن چھڑانا ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ تقدیر کا سہارا لیتے ہیں اور تقدیر میں قیل و قال اور كثرتِ سوال کرکے پھر وہ توحید ِالوہیت اور اسی طرح سے توحیدِ ربوبيت سے اپنا دامن چھڑاليتے ہیں. فنعوذ بالله من ذلك.

درج بالا پیراگراف میں جو بات کہی گئی ہے کہ تقدیر کے مسئلے میں کوئی بھی انسان نہ تو اپنے عمل پر فخر کر سکتا ہے اور نہ ہی وہ عمل کو ترک ہی کر سکتا ہے بلکہ اسے چاہیے کہ وہ اپنے نیک  اعمال کی نسبت ہمیشہ اللہ رب العالمین کی طرف کرتا رہے اور اپنی نجات کا واحد ذریعہ اللہ تعالی کی ذات کو اور اس کے فضل و کرم کواور اس کی رحمت کو سمجھتا رہے ، تو دوسری طرف وہ اپنا نیک عمل کرنا بند بھی نہ کرے، ایسے ہی کسی انسان کے ماضی(Past) کا بھی معاملہ ہےیعنی جو کچھ برا ، تکلیف دہ  اور شر و فساد  اسکی زندگی میں گزر چکا ہے اسکا سارا الزام تقدیر کے سر ڈال کر نہ بیٹھ جائے بلکہ اپنی کوتاہیوں کا جائزہ لےاور پھر سے محنت کرےاور محنت کرتا رہے۔ اور اگر کسی کا ماضی کچھ اچھا گزرا ہو تو اسے  محض اللہ کی توفیق مان کر اس پر مزید اور محنت کرے،شکر ادا کرے اور یاد رکھے کہ یہ شکر بھی عمل کے ذریعہ سے ہی ہوگا۔[ اعْمَلُوا آلَ دَاوُودَ شُكْرًا] دراصل دونوں ہی صورتوں میں  ایک عقلمند ، ہوشیار اور سعادت مند انسان حالات سے سیکھتاہی رہتا  ہے اور مزید باصلاحیت و تجربہ کار بنتا رہتا ہےاور ترقی کی منزلیں طے کرتا رہتا ہے۔اسی بات کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے بہترین انداز میں اس حدیث میں بیان فرمایا ہے اور عمل کرنے پر ابھارا ہے۔

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((لن ينجي أحدًا منكم عمله))، قالوا: ولا أنت يا رسول الله؟ قال: ((ولا أنا، إلا أن يتغمدني الله برحمة،سدِّدوا وقاربوا، واغدوا وروحوا، وشيء من الدلجة، والقصدَ القصدَ تبلغوا))؛ متفق عليه.

ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کسی شخص کومحض  اس کا عمل نجات نہیں دلا سکے گا۔“ صحابہ نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کو بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا: ”مجھے بھی نہیں الا یہ کہ مجھے اللہ تعالٰی اپنی رحمت کے سائے میں لے لے، لہذا تم درستی کے ساتھ عمل جاری رکھو۔ میانہ روی اختیار کرو۔ صبح اور شام، نیز رات کے کچھ حصے میں نکلا کرو۔ اعتدال کےساتھ  سفر جاری رکھو اس طرح تم منزل مقصود کو پہنچ جاؤ گے۔“

اورایسے ہی  جب صحابہ کرام نے ڈائریکٹ پوچھ لیا کہ جب تقدیر میں سب کچھ لکھا ہوا ہے،یہاں تک کہ ہر بندے کی جنت یا جہنم میں سیٹ بھی فکس ہے  تو ہم عمل کرنا ہی چھوڈ دیں یعنی ایسی صورت میں ہمیں عمل کی کیا ضرورت ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی پیاری رہنمائی فرمائی: 

 عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي جَنَازَةٍ فَأَخَذَ شَيْئًا فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِهِ الْأَرْضَ فَقَالَ مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا وَقَدْ كُتِبَ مَقْعَدُهُ مِنْ النَّارِ وَمَقْعَدُهُ مِنْ الْجَنَّةِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفَلَا نَتَّكِلُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ قَالَ اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ أَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ وَأَمَّا مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاءِ فَيُيَسَّرُ لِعَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ ثُمَّ قَرَأَ فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى الْآيَةَ

  حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ ایک جنازے میں تشریف رکھتے تھے۔ پھر آپ نے کوئی چیز پکڑی اور اس سے زمین کریدنے لگے، پھر فرمایا: ’’تم میں سے کوئی شخص ایسا نہیں جس کا جہنم میں ٹھکانا یا جنت میں ٹھکانا لکھا نہ جا چکا ہو۔‘‘ صحابہ کرام نے عرض کی: اللہ کے رسول! تو پھر اس نوشتہ تقدیر (تقدیر کے لکھے) پر بھروسا کر لیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تم عمل کرتے رہو۔ ہر شخص کو ان اعمال کی توفیق دی جاتی ہے جن کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔ جو شخص نیک ہو گا اسے نیکیوں کے عمل کی توفیق ملی ہوتی ہے اور جو بدبخت ہو گا، اسے بدبختوں کے عمل کی توفیق ملی ہوتی ہے۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیات پڑھیں: ’’جس نے دیا اور تقویٰ اختیار کیا، پھر اچھی بات کی تصدیق کی ۔۔‘‘

(4)   اسلامی عقیدے کی کتابوں میں معاملے کی سنگینی

جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے تقدیر سے حجت پکڑتے ہوئے عمل ترک کرنے کی بات کہی تھی جس پر پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں عمل کی ترغیب دلائی  اور اس طرح سے تقدیر کو دلیل بنا کر عمل کو ترک کرنے سے  منع کر دیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے عقیدے کی کتابوں میں شروع سے ہی احتجاج بالقدر کےمباحث  پائے گئے ہیں جن میں تمام علماء اسلام نے تقدیر سے حجت پکڑنے کو باطل قرار دیا گیا ہے مثال کے طور پر عقیدے کی ایک مشہور کتاب ہے عقیدہ طحاویہ اس میں امام طحاوی رحمہ اللہ تقدیر میں بے جاتعمق اور قیل و قال کو حرمان و طغیان اور خذلان کا سبب بتاتے ہو ئے لکھتے ہیں اور اس غور و فکر کے وسوسے پرہیز کرنے پر بھی ابھار رہے ہیں۔

وأصل القدر سر الله تعالى في خلقه ، لم يطلع على ذلك ملك مقرب ، ولا نبي مرسل ، والتعمق والنظر في ذلك ذريعة الخذلان ، وسلم الحرمان ، ودرجة الطغيان ، فالحذر كل الحذر من ذلك نظراً وفكراً ووسوسةً ، فإن الله تعالى طوى علم القدر عن أنامه ، ونهاهم عن مرامه ، كما قال تعالى في كتابه : ( لا يسأل عما يفعل وهم يسألون ) الأنبياء/23 . فمن سأل لِمَ فعل ؟ فقد رد حكم الكتاب ، ومن رد حكم الكتاب كان من الكافرين .

(شرح العقيدة الطحاوية لابن ابی العز ص 276 بتحقیق عبد المحسن الترکی)

ایسے ہی چوتھی صدی ہجری کے مشہور محدث امام خطابی رحمہ اللہ نے (معالم السنن۔ج4/ ص322  میں)  فرمایا کہ بہت سارے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ تقدیر دراصل اللہ کی طرف سے ایک اجبار اور قہرہے بندوں پر حالانکہ  تقدیر کا مطلب ہے کہ یہ چیز اللہ رب العالمین کے علم میں پہلے سے  ہونے کی خبر دے رہا ہے جبکہ اصل کام کرنے والااپنا اختیار استعمال کرنے والا تو بندہ ہی ہے: قد يحسَبُ كثيرٌ من النَّاسِ أن معنى القَدَرِ من اللهِ والقَضاءِ منه معنى الإجبارِ والقَهرِ للعَبدِ على ما قضاه وقدَّره… وليس الأمرُ في ذلك على ما يتوهَّمونه، وإنما معناه الإخبارُ عن تقدُّمِ عِلمِ اللهِ سُبحانَه بما يكونُ من أفعالِ العِبادِ وأكسابِهم وصدورِها عن تقديرٍ منه وخَلقٍ لها خيرِها وشَرِّها۔

شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس مسئلے پر بہت زیادہ کھل کر بہت وضاحت کے ساتھ لکھا  ہے اور اس کے باطل ہونے کو چاہے شرعی نقطہ نظر سےہو یا عقلی نقطہ نظر سے بالکل کھول کھول کر واضح کر دیا ہے اور یہاں تک بتا دیا ہے کہ دنیا کے تمام اہل ادیان اور اہل عقل کا اتفاق ہے کہ تقدیر سے حجت پکڑنا باطل ہے، اور جو لوگ تقدیر سے حجت پکڑتے ہیں دراصل وہ اپنی خواہشات نفس کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں اور ایسے لوگوں سے کہا جائے کہ تم اپنے ظالمانہ اعمال  پر جو تقدیر سے حجت پکڑرہےہو تمہارے اوپر اگر کوئی دوسرا ظلم کرے تو کیا تم بھی تقدیر سے حجت پکڑکر چپ چاپ بیٹھ جاؤ گے تو ظاہر سی بات ہے وہ  اس دلیل کو کبھی قبول نہیں کریں گے اور آپ نے مزید یہ بھی فرمایا کہ بہت سارے لوگ جنہوں نے تقدیر سے حجت پکڑی ہے وہ دراصل مشرکین رہے ہیں لیکن بہت سارے مسلمانوں میں ایسے صوفیہ اور ایسے فقرہ اور عام لوگ فوجی لوگ اور کچھ ہو کہاں ہیں تقدیر سے حجت پکڑنے ہیں لیکن وہ سارے لوگ ظن اور گمان کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں یا اپنی خواہشات کی پیروی کر رہے ہوتے ہیں اگر ان کے پاس علم ہوتا تو وہ کبھی بھی تقدیر سے حجت نہیں پکڑ رہے ہوتے اور یہی وجہ ہے کہ آج بہت سارے لوگ ضلالت و گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں

الاحتجاجُ بالقَدَرِ حُجَّةٌ باطِلةٌ داحِضةٌ باتِّفاقِ كُلِّ ذي عَقلٍ ودينٍ مِن جميعِ العالَمين، والمحتَجُّ به لا يَقبَلُ من غيرِه مِثلَ  هذه الحُجَّةِ إذا احتجَّ بها في ظلمٍ ظَلَمه إيَّاه، أو تَرْكِ ما يجِبُ عليه من حقوقِه، بل يَطلُبُ منه ما له عليه، ويُعاقِبُه على عُدوانِه عليه… تعلَمُ القلوبُ بالضرورةِ أنَّ هذه شُبهةٌ باطلةٌ؛ ولهذا لا يقبَلُها أحدٌ من أحدٍ عند التحقيقِ، ولا يحتجُّ بها أحدٌ إلَّا مع عَدَمِ عِلْمِه بالحُجَّةِ بما فعله، فإذا كان معه عِلمٌ بأنَّ ما فعَلَه هو المصلحةُ، وهو المأمورُ به وهو الذي ينبغي فِعلُه، لم يحتَجَّ بالقَدَرِ، وكذلك إذا كان معه علمٌ بأنَّ الذي لم يفعَلْه ليس عليه أن يفعَلَه، أو ليس بمصلحةٍ أو ليس هو مأمورًا به، لم يحتَجَّ بالقَدَرِ، بل إذا كان متَّبِعًا لهواه بغيرِ عِلمٍ احتَجَّ بالقَدَرِ.
ولهذا لَما قال المشركون: لَوْ شَاءَ اللَّهُ مَا أَشْرَكْنَا وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِنْ شَيْءٍ [الأنعام : 148] ، قال اللهُ تعالى: قُلْ هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ * قُلْ فَلِلَّهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ [الأنعام: 148، 149]؛ فإنَّ هؤلاء المُشركِين يَعلَمُون بفِطْرَتِهم وعقولهم أنَّ هذه الحُجَّةَ داحِضةٌ باطِلةٌ.
فإنَّ أحَدَهم لو ظلم الآخَرَ في مالِه، أو فَجَر بامرأتِه، أو قَتَل ولَدَه، أو كان مُصِرًّا على الظلمِ، فنهاه النَّاسُ عن ذلك، فقال: لو شاء اللهُ لم أفعَلْ هذا، لم يَقبَلوا منه هذه الحُجَّةَ، ولا هو يقبَلُها من غيرِه، وإنما يَحْتَجُّ بها المحتجُّ دفعًا للَّومِ بلا وَجهٍ، فقال اللهُ لهم: هَلْ عِنْدَكُمْ مِنْ عِلْمٍ فَتُخْرِجُوهُ لَنَا بأنَّ هذا الشِّركَ والتحريمَ من أمرِ اللهِ وأنَّه مصلحةٌ ينبغي فِعْلُه، إِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ؛ فإنَّه لا عِلْمَ عندكم بذلك، إن تظنُّون ذلك إلَّا ظَنًّا، وَإِنْ أَنْتُمْ إِلَّا تَخْرُصُونَ: تحزِرون وتَفترون، فعُمدتُكم في نَفْسِ الأمرِ ظَنُّكم وخَرَصُكم، ليس عُمدتُكم في نفسِ الأمرِ كَونَ اللهِ شاء ذلك وقَدَّره، فإنَّ مجَرَّدَ المشيئةِ والقَدَرِ لا يكونُ عُمدةً لأحَدٍ في الفِعلِ، ولا حُجَّةً لأحدٍ على أحدٍ، ولا عُذرًا لأحدٍ؛ إذ النَّاسُ كُلُّهم مُشتركون في القَدَرِ، فلو كان هذا حُجَّةً وعُمدةً، لم يحصُلْ فَرْقٌ بين العادِلِ والظَّالمِ، والصَّادِقِ والكاذِبِ، والعالمِ والجاهِلِ، والبَرِّ والفاجِرِ، ولم يكُنْ فَرقٌ بين ما يُصلِحُ النَّاسَ من الأعمالِ وما يُفسِدُهم، وما ينفَعُهم وما يضُرُّهم.
وهؤلاء المُشرِكون المحتجُّون بالقَدَرِ على تَرْكِ ما أرسل اللهُ به رُسُلَه من توحيدِه والإيمانِ به، لو احتجَّ به بعضُهم على بعضٍ في إسقاطِ حُقوقِه ومخالفةِ أمْرِه لم يقبَلْه منه، بل كان هؤلاء المشركون يذمُّ بعضُهم بعضًا، ويعادي بعضُهم بعضًا، ويقاتِلُ بعضُهم بعضًا على فِعْلِ ما يرونه تركًا لحَقِّهم أو ظُلمًا، فلما جاءهم رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم يدعوهم إلى حقِّ اللهِ على عبادِه وطاعةِ أمرِه، احتجُّوا بالقَدَرِ، فصاروا يحتجُّون بالقَدَرِ على تركِ حقِّ ربهم ومخالفةِ أمرِه بما لا يقبلونه ممَّن ترَكَ حَقَّهم وخالف أمْرَهم!…
ولهذا تجِدُ كثيرًا من المحتَجِّين به والمستَنِدين إليه من النُّسَّاكِ والصُّوفيَّةِ والفُقَراءِ، والعامَّةِ والجُندِ والفُقَهاءِ وغَيرِهم، يَفِرُّون إليه عند اتِّباعِ الظَّنِّ وما تهوى الأنفُسُ، فلو كان معهم عِلمٌ وهُدًى لم يحتجُّوا بالقَدَرِ أصلًا، بل يعتَمِدون عليه لعدَمِ الهُدى والعِلْمِ. وهذا أصلٌ شَريفٌ من اعتنى به عَلِم منشَأَ الضَّلالِ والغَيِّ لكثيرٍ من النَّاسِ

شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے منہاج السنہ میں ایسے لوگوں پر اس سے بھی سخت انداز میں حکم لگایا ہے :

فإن الاحتجاج بالقدر باطل، باتفاق أهل الملل، وذوي العقول، وإنما يحتج به على القبائح والمظالم من هو متناقض القول، متبع لهواه كما قال بعض العلماء: أنت عند الطاعة قدري، وعند المعصية جبري.

ترجمہ : شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تقدیر سے حجت پکڑنا باطل ہے تمام ملتوں کے نزدیک اور تمام عقل والوں کے یہاں۔ البتہ اس سے وہ لوگ اپنے برائیوں اور اپنے مظالم (ظلم و زیادتی) پر حجت پکڑتے ہیں جن کی عقلوں میں خلل ہوتا ہے اور ان کی عقلیں تناقض و ٹکراؤ کا شکار ہوتی ہیں ٬ ایسے لوگ اپنی خواہشات کا اتباع کرنے والے ہوتے ہیں اور انہی لوگوں کے بارے میں بعض علماء نے کہا ہے کہ:۔ تم اطاعت کے وقت تو قدری بن جاتے ہو اور معصیت کے وقت جبری بن جاتے ہو۔ قدری بننے کا مطلب یہ ہے کہ جب اللہ کے نیک کاموں کا حکم دیا جاتا ہے تب وہ تقدیر کا انکار کر دیتے ہیں اور جب انہیں گناہ کرنا ہوتا ہے تب وہ اپنے آپ کو مجبور محض بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ گناہ تو ہماری قسمت میں لکھا تھا اس لیے ہمیں کرنا پڑا۔

اورمجموع فتاوی میں اس طرح کی عبارت ہے : ” هؤلاء القوم إذا أصروا على هذا الاعتقاد كانوا أكفر من اليهود والنصارى ” ( مجموع الفتاوى 8 / 262 )

ترجمہ : اگر یہ لوگ اس عقیدے پر اصرار کریں اس سے باز نہ آئیں تو یہ یہود ونصاری سے زیادہ بڑے کافر ہوں گے۔

اس مسئلے پر شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بہت کچھ لکھا ہے ، حتی کی ان کی مستقل ایک کتاب یا کتابچہ ہے سو، سوا سو صفحات کی جس کا نام ہی ہے ’الاحتجاج بالقدر‘ اور اسکی تحقیق کی ہے علامہ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہہ اللہ

تقدیر کو لے کر کے حجت اور دلیل پکڑنے والے کچھ لوگ ایک واقعہ کو دلیل بنا سکتے ہیں وہ واقعہ یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ الصلاۃ والسلام نے حضرت آدم علیہ الصلاۃ والسلام سے بحث کیا اور کہا کہ آپ نے ہمیں جنت سے نکلوا دیا اور دنیا کی اس مصیبت میں ڈال دیا ہے تو اس پر حضرت آدم علیہ السلام اور موسی علیہ السلام کے درمیان بحث ہوئی لیکن اخیر میں حضرت آدم علیہ السلام نے حضرت موسی علیہ السلام  کو خاموش کرا دیا ،ان پر غلبہ حاصل کر لیا اپنی گفتگو میں یہ کہتے ہوئے کہ اے موسی! مجھے ایک ایسے مسئلہ کے لئے ذمہ دار کیسے ٹھہرا سکتے ہو(ملامت کر سکتے ہو) جس کا فیصلہ اللہ رب العالمین نے میری پیدائش سے کئی سالوں پہلے ہی کر لیا تھا اور اسکا کرنا میری قسمت میں ہی لکھا جا چکا تھا۔

تو اس واقعے کے جو مختلف جوابات دیئے گئے ہیں ان میں سے سب سے احسن اور اچھا جواب یہ ہے کہ حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت آدم کو نہ تو ان کے گناہ کیلئے ملامت کیا تھا اور نہ ہی حضرت آدم علیہ السلام نے کسی گناہ پر تقدیر سے حجت پکڑی تھی بلکہ اس مصیبت پر دلیل پکڑی تھی جو مصیبت ہم کو لاحق ہو چکی ہے لہذا ثابت ہوا کہ وہ مصائب جن کا فیصلہ ہو چکا ہے اس میں انسان اپنے عمل سے کچھ نہیں کر سکتا ہے تو اس پہ کبھی کسی کے ملامت کرنے پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ تو تقدیر کا لکھا ہوا تھا جو ہوالیکن معائب پر تقدیر سے دلیل پکڑنا جائز نہیں ہےکسی بھی صورت میں، بلکہ علماء عقیدہ نے اس کے لئے آئیڈئل بات یہ کہی ہے کہ انسان کو جو کچھ مصائب ملے اس پر وہ صبر کرے اور اللہ کے سامنے استسلام اور مکمل سرینڈر ہوجائےاسکو رب مان کر راضی برضاء ہوتے ہوئےلیکن جب اسے معائب ، گناہ ،سرکشی اور کوتاہی لاحق ہو تو فورا اللہ سے توبہ واستغفار کرےاور اس گناہ کے نتیجے میں ملنے والے مصائب پر صبر کرے۔

تقدیر سے حجت پکڑنے اور اسے اپنے اعمال کے لئے دلیل بنانے کی تردید کرتے ہوئے علماء کرام نے چاہے وہ متقدمین ہوں یا متاخرین کافی کچھ لکھا ہے لیکن یہاں اختصار کے پیش نظر ان چیزوں کو چھوڑا جارہا ہے اور یہ چھوٹا سا مضمون اس کا متحمل بھی نہیں ہے

(5):یہ دنیا اسباب کی دنیا ہے اس میں اسباب استعمال کئے بغیر کوئی اور چارہ نہیں ہے۔ورنہ  کسلانوں کی جماعت کس نشاط کے ساتھ کسل مندی پر دلیلیں دیتی ہے کہ اچھے اچھے خاموش ہو جائیں۔

اب اسباب اختیار کرنے پر علماء شریعت اور علماء عقیدہ نے کس قدر دلیلیں دی ہیں اور کتنا ابھارا ہے اس پر آگے لکھیں گے إن شاء اللہ تعالی۔

(جاری)

فؤاد أسلم المحمدی المدنی

  • Foaad Aslam
    June 1, 2025 at 9:13 pm

    ہ

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*