خانہ کعبہ میں ہندوانہ سلام کے ساتھ داخل ہونے والا شخص کون تھا اور اس واقعے سے مسلمانوں کی دینی حالت کی کمزوری کا کتنا پتہ چلتا ہے؟

ابھی سوشل میڈیا کا استعمال اہل خیر سے زیادہ اہل شر کرتے ہیں اور یہی وجہ ہیکہ آج یہ کسی بڑے فتنے کے قائم مقام ہو گیا ہے جہاں پر شرو فساد کا بازار گرم ہے اور عریانیت و بے حیائی کا بیس بنا پوا ہے ، اسے فتنوں میں سے ایک بہت ہی بڑا فتنہ ہے فیک نیوز یا جھوٹی خبریں پھیلانا اور اس کام کے لئے سب کے بڑی جگہ ہے سوشل میڈیا جہاں پر سچائی کے مقابلے میں جھوٹ ہزاروں گنا تیز بالکل جنگل کی آگ کی طرح پھیلایا جاتا ہے ، اس کے لئے برادران وطن اور دیگر اقوام کی فکر مندیاں اور انکی بعض اصلاحات وقتا فوقتا دیکھنے کو ملتی رہتی ہیں، لیکن اس تعلق سے ہم مسلمانوں کا کیا طرز عمل رہا ہے کہ جنہیں صرف دین و شریعت ہی عطا نہیں کیا گیا بلکہ وہ تو دنیا میں برپا ہی اسی لئے کئے گئے تھے تاکہ اچھی بات کا حکم دیں اور برائیوں سے روکیں اور جن کے وجود سے ہی دنیا مے علم  و تحقیق اور جستجو و آگہی کیی منزلیں طے کی ہیں اور جنہوں نے اس تعلق سے علم جرح و تعدیل اور اسماء الرجال جیسے علوم کی بنیاد رکھی ہے لیکن آج کیسے وہ ان تمام اخلاق و اقدار سے بے پروا و بے بہرہ ہو چکے ہیں۔

دراصل بات یہ ہیکہ گزشتہ دنوں کسی آدمی نے ایک چھوٹی سی ویڈیو کلپ اپنے سیاق و سباق سے کاٹ کر شیئر کیا جو بہت غیر واضح ، ہلکی کوالٹی کی ویڈیو تھی جس میں موجود لوگوں کی بالضبط پہچان مشکل تھی اور اس میں یہ دکھایا گیا تھا کی کچھ لوگ خانہ کعبہ کے اندر داخل ہو رہے ہیں اور اس میں ایک شخص ہندؤوں کی طرح ہاتھ کوڑ کر سلام کرتے ہوئے داخل ہو رہا ہے ، اب اس ویڈو کے ساتھ جو کیپشن یا تبصرہ لکھ کر شیئر کیا جا رہا تھا وہ نہایت ہی خطرناک اور بھیانک بات تھی کہ

’’ ہندووں کو دخولِ کعبہ وحرم کی اجازت عام

ذرا خود سر وسرکش “یہود نما آل سعود” کی بھی خبر لیں۔

انڈین ایمبسی کے ہندو آفیشیلز کو کعبہ مقدسہ میں داخلے سے نوازتے ہوئے۔

 کس قدر اہل حرم ہوگئے بے توفیقے

یاد رہے کہ تین ماہ بعد جولائی ٢٠٢٤ سے غیرمسلموں کو زیارت کعبہ کی اجازت عام دی جانے والی ہے۔

کبھی بتوں سے صحن کعبہ کو پاک کیا گیا تھا۔

اور آج بت پرستوں کے ناپاک وجود سے فضاے حرم کو متعفن کرنے کی مجرمانہ کوشش ہورہی ہے۔

فالیک المشتکی یارب ولاحول ولا قوة الا بک۔

اندوہ گیں: چریاکوٹی‘‘

اس پروپیگنڈائی انداز کو اردو میں شیئر کیا گیا وہ  بھی ایک ایسے اسلامی ملک کے خلاف جس کی پوری دنیا میں خالص دینی پہچان ہے اور  ہر چہار دانگ عالم میں علم و علماء کی سرپرستی اور دنیا کے مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی خبرگیری اور مشاعر مقدسہ کی دیکھ بھال جیسے عظیم کارنامے اللہ رب العالمین نے اس کی جھولی  میں ڈال رکھی ہے ، اور یہ تمام عظمتیں  روزِ اول سے ہی پورے  عالمِ اسلام کے سامنے رہی  ہیں ۔

       اس نازیبا اور گھناونی حرکت کے پیچھے کیا مقاصد تھے ؟ کیا فقط سعودی عرب کے خلاف اپنا بغض نکالنا تھا یا ہماری قوم کے جمہوریت زدہ لڑکوں کا وہ محبوب مشغلہ کہ ہر وقت مسلمانوں کے حکمران اوراپنے ہی  اولو الامر کا اسقاط کرتے رہو ، ان کی پوزیشن کم کرتے رہواور انکی سطوت  وہیبت لوگوں کے دلوں سے نکالتے رہو، وغیرہ وغیرہ ۔

تو دراصل ایسےلوگ سب سے پہلے ڈیموکریسی کی پروردہ جنریشن ہیں جنہیں جمہوریت نے پالا پوسا ہےاور تیسری دنیا کے ایسے جمہوریت زدہ لوگوں کا کام ہی یہی ہوتا ہے کہ وہ اپنی حکومتوں کو کمزور سے کمزور تر کرتے رہیں صرف جمہوریت کے نام پر

اور دوسری طرف ان کی تھوڑی موڑی جو دینی حالت ہے اس میں دین کا صرف اتنا حصہ ہےکہ جتنا بعض تحریکی یا جماعت اسلامی کے لٹریچروں میں بھرا ہوا ہے، بالکل ہی اخوانیت زدہ مسلمان ، نہ بزرگوں کی عزت ، نہ اسلاف امت سے کوئی نسبت اور نہ ہی علم کے حقیقی سرچشمے کتاب و سنت سے کوئی دلچسپی ، شب و روش مسلمان امراء و سلاطین اور علماء و اعیان کے اسقاط پر کمر بستہ رہنے والے لوگ جو خود ہی اپنی جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں اور اپنے ہی ملک کے دشمن ، اور غرب ( west) کے حامی اور بے شعوری میں امریکہ و یورپ کی غلامی کا فریضہ انجام دینے والے ایسے کارندوں کے رہتے ہوئے مسلمانوں کے ملکوں اور حکومتوں کا باہری کوئی دشمن رہے یا نہ رہے انہیں برباد کرنے کیلئے یہی لوگ کافی ہیں ۔

رہی بات ویڈیو میں نظر آنے والے شخص کا ہندوانہ طریقہ پر  سلام کرتے ہوئے خانہ کعبہ میں داخل ہونا تو یہ بات مسلم قوم کی ایک دوسری ہی انتہاء کو اجاگر کر رہی ہےاور وہ ہے مسلمانوں کی حد سے زیادہ جہالت و بدعقیدگی، توھم پرستی اور دینی تعلیم سے دوری و بیزاری، یہ وہ طبقہ ہے جو اگر اعلی تعلیم یافتہ ہوگا اور ممکن ہے دنیا کی بڑی سے بڑی یونیورسٹی کی آخری ڈگری بھی حاصل کر لیا ہولیکن اپنے دین سے ناواقفیت اور بے مائیگی کا یہ عالم ہوگا کہ ممکن ہے سورہ اخلاص بھی یا د نہ ہو۔ اور اگر اعلی تعلیم یافتہ نہیں ہے تواسکی حالت اور بھی بدتر ہوسکتی ہے۔

ایسے لوگوں کیلئے رہی سہی تربيت والدین ، قرب و جوار اور دوست و احباب کی معاشرتی تربیت کچھ کام کر سکتی تھی لیکن ہمارے یہاں اعلی تعلیم والے اپنے گھروں سے ایسا نکلتے ہیں کہ واپس ہونے کا نام ہی نہیں لیتےاور باقی بچے آس پاس پڑوس اور محلے کے لوگ تو ان کی بھی دینی حالت کافی دگرگوں ہےاور دوست احباب جو انسان کی زندگی میں ایک قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں ، کسی کی تربیت پر اچھا اثر ڈالتے ہیں  لیکن آج وہ ہمارے سماج اور معاشرے سے نایاب ہوتے جا رہے ہیں بلکہ برے اور بدکردار لوگوں کا حلقہ انسان کے اردگرد اتنا بڑا ہوتا جا رہا ہےکہ وہ انکی برائی سے خود کو محفوظ نہیں رکھ پاتا ہے۔

بہر حال ویڈیو میں نظر آنے والا شخص خواہ کسی بھی قوم یا قبیلے یا ملک سے  ہووہ اہم نہیں ہےبلکہ اہم یہ ہیکہ وہ ایک مقتدر و محترم مسلمان ہے چاہے وہ پاکستان کا وزیر دفاع ہو ایا بنگلہ دیش کا کوئی سرکاری عہدیدار ہو یا ترکی کاکوئی اہلکار ( جیسا کہ لوگوں کی الگ الگ تحقیقات سامنے آ رہی ہیں ) اور اس کے مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ کسی بڑے مسلم ملک کا ذمہ دار ہونے کے باوجود بھی ایسی ہندوانہ حرکت کرنا واقعی میں افسوس ناک امر ہےاور یہ اپنی قوم کی جہالت کا اعلی نمونہ اور المیہ ہے  کہ روز مرہ کی چیز اور ادب آداب میں اسلامی تعلیمات کی ہلکی سی شدھ بدھ بھی نہیں ہے ۔

کئی انڈونیشیائی اور ملیشیائی طلبہ کو دیکھا جو جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ  میں زیر تعلیم تھے جب انکے گھر والے مدینہ ایئرپورٹ پر آئے تو انھوں نے بالکل ہندؤوں کی طرح ہاتھ جوڑ کر سلام کرنا شروع کر دیا بالخصوص خواتین ایسا کر رہی تھی ، ان سے پوچھا کہ یہ آپ کے گھر والے ایسا کیوں سلام کررہے تھے کیا آپ کا کوئی خلفیہ ہندؤوں جیسا ہے کیا؟

تو نہایت ہی بے پروائی سے کہا کہ نہیں بس “هذه عادات وتقاليد”.

ایسے میں لمحۂ فکریہ ہماری اپنی قوم کے لئے یہ ہے ( جو کہ ہندؤوں کے نرغے میں رہتی ہے ) کہ ہم نے اگر انکی صحیح دینی تربیت نہ کی تو اردتداد وغیرہ کے حادثات (نعوذ باللہ) نہ ہوتے ہوئے بھی ہم اپنا دین و اخلاق اپنے ہی گھروں، محلوں اور آس پاس میں مٹتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے۔

بنو امیہ کے دور میں فتوحات اسلامیہ جب بہت زیادہ ہو گئیں تو بہت بڑے بڑے امراء اور علماء کا یہ مشورہ تھا کہ ہم کچھ سال ان فتوحات کو روک کر ان مفتوحین کو پورا پورا اپنا بنا لیں ورنہ یہ کب اپنے عادات و تقالید پر واپس چلے جائیں کچھ پتہ نہیں اور پھر انہوں نے صلاحیت اور استطاعت ہونے کے باوجود کئی سالوں تک اپنی فتوحات روک رکھی تھی ، یہ واقعہ غالبا شمالی افریقہ کا ہے ۔

یہی فرق دکھتا ہے ان جگہوں کے مسلمانوں کی دینی حالت میں جہاں صوفیاء کے ذریعہ اسلام پھیلا اور ان جگہوں کے بارے میں جہاں عرب مجاہدین نے اسلام پھیلایا اور وہ وہاں پر اپنے تمام لاؤ لشکر کے ساتھ اپنی تعلیم، علماء اور دیگر وسائل تربیت کے ساتھ موجود رہے ۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*