نام و نسب : أحمد بن علي بن محمد بن محمد بن على بن محمود بن أحمد الكناني العسقلاني،
لقب: خاتمةُ الحُفّاظ،شیخ الاسلام ،امیر المؤمنین فی الحدیث، شهاب الدين، ابن حَجَر،
کنیت : أبو الفضل،
ولادت : آپ کی ولادت ۱۲یا ۱۳یا ۲۲ شعبان ۷۷۳ھ کو مقام عسقلان(فلسطین) میں ہوئی، بچپن میں ہی میں آپ کی والدہ کا انتقال ہو گیا تھا، اسکے بعدپانچ سال کی ہی عمر میں انکے والد بھی چل بسےاور وفات سے پہلے انہیں اپنے ایک تاجر دوست زكى الدين الخرّوبى کے حوالے کر کے انکی اچھی تعلیم و تربیت کی وصیت کرگئے، ساتھ ہی ساتھ شیخ شمس الدین ابن القطان کو بھی اپنے فرزند ارجمند کے لئے وصیت کی تھی ، یہی وجہ ہیکہ حافظ ابن حجر انہیں کے دروس میں شریک ہوا کرتے تھے ، جہاں سے انہوں نے فقہ، عربی زبان وادب اور حساب وغیرہ کی تعلیم حاصل کی ۔ آپ کی قوت ِحافظہ اور ذہانت کا یہ حال تھا کہ نو سال کی عمر میں ہی حفظ قرآن مکمل کر لیا اور بارہ سال کی عمر میں مکہ مکرمہ کے اندر لوگوں کو تراویح کی امامت کرائی جو بلاشبہہ بڑے عز و شرف کی بات ہے۔
ابتداء میں آپ کو عربی ادب اور اشعار وغیرہ سے دلچسپی ہوئی ، جس میں بہت ملکہ حاصل کیا اور اشعار کے استحضار میں لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیااور کبھی کبھار خود بھی نظم لکھا ، بہترین لکھااور نثر کے تو آپ بے تاج بادشاہ تھےہی۔
لیکن اس کے فورا بعد سن ۷۹۳ ہجری میں اللہ نے آپ کے دل میں علم حدیث کے لئے محبت پیدا کردی اور سن ۷۹۶ ہجری آتے آتے آپ نے اسی فن کو اپنی زندگی کا اصل محور بنا لیااور حدیث کے ہر گوشے کو اپنی تصنیفی ، تالیفی ، تدریسی اور تبلیغی خدمات سے سیراب کیا۔
حافظ ابن حجر العسقلانی نے طلب علم کے لئے دس سال کی عمر میں ھی سفر کرنا شروع کر دیا تھا ۔ چناچہ آپ نے کسی ایک وصیت کرنے والے کے ساتھ مکہ مکرمہ کا سفر کیا ، اور وہاں اہل علم سے سماع کیا ، پھر طلب حدیث کا شوق ہوا تو آپ حجاز، شام ، اور مصر کے کبار شیوخ سےعلم حاصل کرنے میں مشغول ھوئے ۔
– : آپ کے جلیل القدر اساتذہ
٭ زین الدین العراقی
٭ امام بلقینی
٭ علامہ ابن الملقن
– : خدمات
آپ مختلف طرح کے علوم و فنون میں مہارت حاصل کرنے کے بعد بالخصوص علم حدیث کی نشرو اشاعت کی طرف متوجہ ھوئے اور مطالعہ ، قراءت ، تدریس و تصنیف اور افتاء کی صورت میں اس پر جمے رہے ، اور متعدد جگھوں میں تفسیر ، حدیث ، فقہ اور وعظ و نصیحت کی تدریس کی ۔ جس سے ہرکس و ناکس مستفید ھوتے رہے۔
– : صفات
آپ تواضع ، بردباری ، صبر و تحمل ، خوش طبعی ، وسعت و ظرافت ، قیام و صیام ، احتیاط و ورع ، جود و سخاء ، برداشت، باریک و لطیف کلام اور عمدہ اور نفیس نوادر کی طرف میلان میں مشہور و مختار تھے ، جیسا کہ آپ ائمہ متقدمین و متاخرین اور اپنے پاس بیٹھنے والے ہر چھوٹے بڑے کا ادب و احترام کرنے میں منفرد اور بےمثال تھے ۔
– : تصانیف
آپ کی تصانیف ۳۰۰ ؍کتب سے زیادہ ہیں ۔ جن میں مشہور چند کتابیں مندرجہ ذیل ہیں :
٭ فتح الباری شرح صحیح البخاری ۔
٭ بُلُوغُ اَلْمَرَامِ مِنْ أَدِلَّةِ اَلْأَحْكَامِ۔
٭ الإصابۃ فی تمییزالصحابہ ۔
٭ تھذیب التھذیب ۔
٭ الدرایۃ فی منتخب تخریج احادیث الھدایۃ ۔
٭ الدر الکامنۃ فی اعیان المِائۃ الثامنۃ ۔
٭ نخبۃ الفکر فی مصطلح اھل الاثر
٭ لسان المیزان ۔
٭ القول المسدد فی الذب عن المسند ۔
٭ سلسلۃ الذھب ۔
٭ إنباء الغمربابناء العمر ۔
حافظ ابن حجر العسقلانی کا انتقال ذی الحجہ سن ۸۵۲ہجری کو ہوا۔