نبی کریم ﷺ ( آپ پر ہمارے ماں باپ قربان)کے اہانت آمیز کارٹون بناکر یورپ نے دراصل اپنی اس تلملاہٹ کا اظہار کیا ہے جس میں وہاں مسلمانوں کی تعداد دن بدن بڑھتے ہوئے دیکھ کر انکی بدحواسی اپنے چرم سیما پر پہونچی ہوئی ہے اور یہ انکی تنگ نظری، نسل پرستی اور نفرت آفرینی کا جیتا جاگتا ثبوت بھی ہے اور یہی اسلام کی دعوت اور ایمان و ایقان کی بادِبہاری انکے الحادی اور بےحیائی بھرے نظام الحیات کا قصہ تمام کرنے کا ایک اچھا پیش خیمہ ہے جسے چاہے وہ تطرف(انتہا پسندی) کا نام دیں یا پھر اسے تہذیبوں کا ٹکراؤ کہیں یا پھر استہزائی کاروائی اور ہلکے پن پر اتر آئیں، اللہ کا دین عزیز ہے عزیز رہے گا إن شاء الله.
(یُرِیدُونَ أَن یُطۡفِـُٔوا۟ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفۡوَ ٰهِهِمۡ وَیَأۡبَى ٱللَّهُ إِلَّاۤ أَن یُتِمَّ نُورَهُۥ وَلَوۡ كَرِهَ ٱلۡكَـٰفِرُونَ هُوَ ٱلَّذِیۤ أَرۡسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلۡهُدَىٰ وَدِینِ ٱلۡحَقِّ لِیُظۡهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّینِ كُلِّهِۦ وَلَوۡ كَرِهَ ٱلۡمُشۡرِكُونَ )
ترجمہ : یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو.
اور اگر اس گستاخانہ حرکت کا تاریخی اور سائنٹیفک دراسہ کیا جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ ماضی کے عہد وسطی میں یورپ جس مذہبی کٹرتا اور کلیسائی رعونت کو چکھ چکا ہے وہ اب مذہب سے ہی بالکلیہ نکلنا چاہتا ہے تو اسے سوائے طوفان بدتمیزی کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ وہی فرانس دنیا بھر کے ننگوں اور فیشن پرستوں کا قبلہ بنا ہوا ہے.
اور یہ کوئی تعجب خیز معاملہ نہیں کہ ”ستر چوہے کھاکے بلی حج کو چلی “بالخصوص یورپ کے پس منظر میں کہ جہاں گزشتہ صدی کے درمیان نوآبادیات میں کی گئی نسلی کشیوں کے علاوہ خود ان کے گھر میں دو دو عالمی جنگوں کے وہ بھیانک نتائج سامنے آئے کہ جس سے انسانیت کانپ اٹھے کیونکہ لاشوں کی تعداد کروڑوں سے تجاوز کر گئی تھی اور پھر بلی بایں طور حج کو چلی کہ آنا فانا حقوق انسانی و حیوانی کا قیام عمل میں آ گیا، یو این بن گیا اور اقوام متحدہ وجود میں آکر کھڑا ہو گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کل کے ہتیارے آج کے نجات دہندہ بن گئے اور یہ نجات دہندگی کا سودا بھی کچھ اس طرح کا ہوا کہ یو این کے قیام سے لیکر آج تک مغرب کے بے شمار ممالک تیسری دنیا کہنے جانے والے خطے کے مختلف ممالک میں اپنی فوجیں اتار چکے ہیں، سرد جنگ کا ایک دور چلا ہے جہاں کئی ملک خاتمے کے کگار پہ آ گئے اور اس “شانتی” کے عہد جدید میں دنیا کے مختلف علاقوں میں جو لاشیں گریں، وہ اپنی جگہ پر ۔اس سے زیادہ کتنی حکومتیں گریں اور نتیجے میں کس قدر عدم استقرار پھیلا، اس سب کا حساب ہونا چاہیے ، کیونکہ یہ سب نیو ورلڈ آڈر کے شانتی نامے کے بعد ہوا ہے، اور مسلسل ہوتا جا رہا ہے خواہ عسکری یلغار ہو یا فکری یلغار یا پھر مختلف بہانوں سے بھولے بھالے لوگوں کو ورغلانا ہو۔
الغرض یورپ کی انسانیت نوازی کا ڈھنڈورا اس کی خونی تاریخ کے سامنے خود اسے ہی منہ چڑھانے کیلئے کافی ہے باقی عورتوں کے حقوق اور انکی دور دشا، آزادی اظہارِ رائے اور اسکے ساتھ کی طوفان بدتمیزی، کلیسا سے بیزاری اورپھر مزاج میں وہی کلیسائی تنگ نظری، تہذیبوں کا ٹکراؤ دکھاکر تہذیبوں کو ٹکرانا بلکہ ختم کرنا اور خود کو تہذیب و تمدن کا مخزن سمجھتے ہوئے بدتہذیبی کی حدیں پار کردینا، یہ اور اس کے علاوہ بے شمار وہ تضادات ہیں جن میں یورپ جی رہا ہےیا بے موت مر رہا ہے اور اپنے روحانی اور اندرونی شانتی سے اس قدر دور ہوتا چلا جا رہا ہے جس کا کچھ شمار نہیں. اس کے باوجود بھی عالم اسلام کو تنگ نظری والی کن انکھیوں سے دیکھتے رہنا ۔۔۔ وغیرہ۔۔ یہ باتیں چند ہفتے پہلے کافی بار ذہن میں آئی تھیں جب نیٹ فلکس پر معصوم بچیوں کو لیکر ایک فلم بنائی گئی تھی اور جس میں مسلم معاشرے کا نفاق دکھانے کی کوشش کی گئی تھی اور جنسی وحشت کو مصوم بچیوں کو فلمایا گیا اور یہ درس دینے کی کوشش کی گئی کہ مسلم گھرانے یورپ میں کس اخلاقی زوال کا شکار ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ منافقت سے کام لے رہے ہیں، لیکن اسی وقت یہ بھول گئے کہ یہ وحشتناکیاں خود ان کا (اہل یورپ کا) اوڑھنا بچھونا رہا ہے، بہرحال اس فلم کی وجہ سے نیٹ فلکس کا کافی بڑے پیمانے پر بائیکاٹ بھی ہوا اور یورپی سماج بالخصوص فرانس اپنی بدکاری اور زناکاری میں اپنے اسی مقام پہ فائرز رہا جہاں 60%فرسنٹ سے زیادہ بے نکاحی اولادیں گھوم رہی ہیں اور جن کا صدر بھی اپنی کم سنی کی بدکاری اور ٹیچر سے منہ کالا کئے جانے کے باوجود ہردلعزیز بنا ہوا ہے اور قوم اسے اپنا منتخب نمائندہ مان رہی ہے، اسکے باوجود وہ اسلام کوہی سنکٹ میں دیکھ رہا ہے اور آزادی اظہار رائے کا راگ الاپنے میں لگا ہوا ہے.
دراصل یہ جس آزادی یا مادر پدر آزادی اور ہر ننگ و عار سے آزادی کی بات کرتے ہیں وہاں کسی نبی یا رسول یا عام عزت دار کی بےادبی کرنا کیونکر گناہ باور ہوگا.
ایسی صورت میں میں یورپ کے مسلم سماج کا اسلامی تہذیب و تمدن کو اپنائے رکھنا اور اسلامی اعلی اقدارو اخلاق کا فروغ دیتے رہنا، کسی عظیم جہاد سے کم نہ ہوگا، کیونکہ ابھی یہ براعظم سب سے زیادہ ضرورت مند ہے اسلامی تعلیمات کا ،رب العالمین کی توحید خالص کا ،ایمان و ایقان کا اور سب سے بڑھکر اخلاق و حشمت اور فضیلت و کرامت کا جس سے سیراب ہوکر وہاں کی انسانیت حقیقی معنوں میں اسلام کی فطری تعلیمات اپنا سکے اور انسانیت و شرافت کا جنازہ نکلنے سے بچ سکےاور تبھی جاکر ہمارے گلے میں دعوت کا فریضہ عہدا بر ہو سکے گا.
وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين