موجودہ دور میں مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ کا مقام و مرتبہ
مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ کی شخصیت کواس دور میں اجاگر کرنا اور خاص کر انکی فکر اور وچار دھارا کوموجودہ دور کی تشویشناکیوں میں سامنے لانا بہت ضروری ہے.
آج جب ہر کوئی اپنی مخصوص ایڈیالوجی کا الو سیدھا کرنے کے لئے مجاہدین آزادی اور اولین کانگریس کے قومی لیڈروں میں سے اپنے من موافق چہرہ چن کر اٹھا رہا ہے اور اسی پر اپنی فکر و سیاست کی بنیاد رکھ رہا ہے خواہ وہ قومی لیڈر اس مزعومہ فکر کے کتنا ہی مخالف کیوں نہ رہا ہو، تو ایسی صورت میں ضرورت اس بات کی ہیکہ ہم مولانا آزاد کے افکار سے گرد ہٹاکر انہیں دنیا کے سامنے پیش کریں، اس وقت مسلمان جن مسائل کا شکار ہیں مولانا نے اسے بہت پہلے ہی اپنی بصیرت والی آنکھوں سے دیکھ لیا تھا، ہمیں اس تعلق سے ان کی رہنمائی اور پوشیدہ حکمتوں کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے…. جب ہر قومی لیڈر کا پولرائژیشن کیا جا رہا ہے تو ہم مولانا کے افکار و خیال کو کیوں نہ پورے بھارت ورش میں پھیلائیں ،کیونکہ آپ کی شخصیت کسی خاص طبقے کے لئے نہ تو مختص تھی اور نہ ہی آپ بے جا تحفظ والے تھے بلکہ اکھنڈ بھارت اور راشٹریہ ہت کا سب سے بڑے پرتیک مولانا آزاد ہی تو تھے، کسی کو کشمیر نہیں چاہیے تھا تو کسی کو دکن سے عدم دلچسپی تھی اور کسی کو تو پورا ایک ملک ہی الگ لینے کی جلدی تھی لیکن ہم سب کے مولانا کو پورا بھارت متحدہ ہندوستان ہی پیارا تھا اور کچھ نہیں، وہ اس اکھنڈتا کے ایسے پرچارک تھے جو کبھی کسی سے اس نظریہ پر سمجھوتہ نہیں کرسکتے تھے خواہ اپنا ذاتی نقصان اور سیاسی اولوالعزمی و کریر لیبل کا کتنا ہی بڑا خسارہ کیوں نہ اٹھانا پڑ گیا ہو، اسی طرح آج جس دیش بھکتی اور اکھنڈ بھارت کا راگ الاپا جا رہا ہے مولانا اس بھکتی کی معراج تھے، مولانا صرف ایک سیاسی لیڈر ہی نہیں تھے بلکہ تعلیم اور ایجوکیشن کے وہ گرو تھے جنھوں نے بھارت کو اپنے شروعاتی دور میں ہی علم و معرفت کے میدان کا ستارہ بنا دیا تھا حتی کہ آج تک ہم انکی کاوشوں کا ثمرہ ایجوکیشن کے میدان میں دیکھ رہے ہیں ،یہ جدید ٹیکنالوجی اور آئی ٹیز (ITs) کا قیام اور ایٹامک سینٹروں کی سرگرمی، ان سب کے خشت اول پہ مولانا کا ہی نام لکھا ہے.
لیکن آپ کو جس قدر بھلایا جا رہا ہے اور خود آپ کے اپنوں کے ذریعہ تو یہ بہت دکھ دایک ہے۔
ایک آخری بات یہ کہ مولانا کے نظریات اور بالخصوص مسلم اقلیتوں کے تئیں آپکے مفید فارمولے آج بھی دنیا کے لئے اکسیر کی حیثیت رکھتے ہیں جسکا بڑے پیمانے پر دراسہ ہونا چاہیئے اور اسکی تطبیق کی سفارش بھی کرنی چاہیئے،،، کیونکہ آپ اس وقت کے ناخدا تھے جب یہ قومی یا سیکولر ریاستیں دھڑادھڑ وجود میں آنا شروع ہو گئی تھیں اور آپ نے اس حقیقت سے نظریں نہیں چرایا تھا بلکہ اس عالم کاری کے دور کو پوری طرح سمجھا، برتا اور اسکے لئےمناسب زاویہ نگاہ اور کام کا خاکہ پیش کیا. لیکن افسوس ! مفاد پرست لوگ اپنے اپنے مفادوں کی ٹکڑی لیکر الگ ہوگئے. لیکن آپ سفید کو کبھی سیاہ نہ کہہ سکے.
عبدالخالق عبدالمعيد المدني
November 11, 2020 at 1:01 pmیہ مضمون پڑھ کر بہت اچھا لگا
Rafeeque Ahmed
November 13, 2022 at 10:11 pmبہت ہی عمدہ تحریر ہے شیخ پڑھ کر بہت اچھا لگا