دینی و عصری تعلیم پر کچھ اہم نکات
نحمده ونصلي على رسوله الكريم وعلى آله وأصحابه وأتباعه أجمعين أما بعد
اللہ رب العالمين نے انسانی ہدایت کا آخری سرچشمہ جب اس دھرتی پہ اتارا تو اسکی شروعات ہی کلمہ “اقرأ” سے ہوئی، جس نے انسان کو یہ سمجھا دیا کہ اب آگے کے سارے کام پڑھنے اور پڑھانے سے ہی انجام دیئے جائیں گے اور اس اقرأ کو بے لگام بھی نہیں رکھا گیا کہ سب کچھ پڑھنے کا ہر آدمی قصد کرے اور اپنا و دنیا کا نفع نقصان جانے سمجھے بغیر سب کچھ پڑھتا رہے بلکہ اس اقرأ کو باندھ دیا ہے “باسم ربک الذی خلق” کے ایک ربانی اور خُدائی بندھن سے کہ جس کے نام سے پرھنا سراپا خیر و برکت کا باعث ہوگا إن شاء الله
جامعہ محمدیہ منصورہ مالیگاؤں جو کہ اپنی ابتداء سے ہی دینی اور عصری تعلیم کا نہایت ہی حسین سنگم رہا ہے اور جہاں کے نصاب تعلیم وتربیت کو انھوں نے بھی اپنایا اور سراہا ہے جو کبھی اس کے مخالف تھے اور اب تو اس دینی و عصری تعلیم کے حسین امتزاج کی جیسے ایک بیار چل پڑی ہے، ہر کوئی اس ہمہ جہت تعلیمی طریقے کو اپنانے میں لگا ہوا ہے، الحمد للہ. بالخصوص ایسے دور میں جب کہ مسلمانوں کے لئے عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا ہے،
مادر علمی جامعہ محمدیہ منصورہ ، مالیگاؤں کا سب سے بنیادی اور اہم ادارہ آفاق اکیڈمی جو کہ اس حسین امتزاج کا ایک مرقع ہے، اس نے اپنے آنے والے تعلیمی سال کے تئیں جس سرگرمی کی شروعات کردی ہے اس کو دیکھکر ہر کوئی اس قافلے سے جڑنے کا خواہشمند ہوگا، اسی ضمن میں جامعہ کے خطباء کرام کا ایک رحلہ جو کہ 2؍اپریل 2021 کو عروس البلاد ممبئی کی متعدد مساجد میں خطبے کے لئے بھیجا گیا تھا اور اس سفر کی روانگی سے پہلے “موجودہ دور میں دینی و عصری تعلیم کی ضرورت دین کی پہراداری میں” کے عنوان پر بعض نکات جو میں نے متعلقہ واٹس آپ گروپ میں بھیجا تھا، اور وہ سب پوائنٹ کی شکل میں ہیں، اختصار سے پُر ہیں اور اغلاق کے قریب ہیں جن کی شرح و فتح اور توضیح و تفصیل قریبی کسی وقت میں نشر کی جائے گی إن شاء الله العزيز.
ذیل میں ان نکات کو افادہ عامہ کی خاطر قارئین کرام کے حوالے کر رہا ہوں اس امید پر کہ اللہ رب العزت اس سے لوگوں کو نفع پہونچائے گا. وما ذلك على الله بعزيز
الحمد للہ خطبے بہت کامیاب رہے جن میں “موجودہ دور میں دینی و عصری تعلیم کی اہمیت و ضرورت” کے عنوان پر مدلل و مبرہن گفتگو کی گئی، ہر قسم کی اشتہار بازی سے بچتے ہوئے خالص امت مسلمہ ہندیہ کا درد لئے ہوئے، تعلیم میں بیداری اور تربیت اسلامی کی اہمیت و ضرورت کو بیان کرتے ہوئے خطبہ مکمل کیا گیا ۔
٭٭٭٭٭٭
١. دینی علم حاصل نہیں کیا تو سفر آخرت دشوار ہوجائے گا جو ہماری اصلی اور ابدی منزل ہے جبکہ عصری علم نہیں لیا تو یہیں دنیا میں ہی سفر اور تنقل دشوار ہو جائے گا.
٢. اگر کوئی مسلم طالب آگے یونیورسٹی میں اعلی تعلیم حاصل کرتا ہے تو اسے وہیں کے ماحول اور مراجع کا پابند بننا پڑتا ہے خواہ وہ اپنی قوم کے تئیں کتنا ہی غیور کیوں نہ ہو جبکہ دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم حاصل کرنے والا یونیورسٹیژ میں دیگر مسلم طلبہ کا مرجع ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی قوم کا زیادہ موثر اور غیرت مند ممثل بن کر ابھرے گا.
٣. عصری کالجز میں کوئی بہت بہت محنت کرلے تو بھی فقط وہ تعلیم ہی پائے گا، کچھ تھوڑا بہت لیفٹ رائٹ تربیت کے ساتھ. جبکہ ایک دینی اقامتی ادارے میں خواہ آپ کوئی بھی علم حاصل کریں، آپ کی دینی تربیت تو ہوتی رہیگی بإذن الله تعالى.
تو کیا خیال ہے آپ حضرات کا اس دینی اسلامی اور محمدی ادارے کا جہاں ایک دینی اقامت گاہ میں رہکر طالب دونوں علوم (عصری+عربی) سے بیک وقت بہر مند ہو.
٤. ایک مجرد چند پاروں کا حافظ جب بھی اپنی لائن چینج کرتا ہے خواہ جس بھی علم کا قصد کرے، اسے اپنے ان سابقہ یاد کئے ہوئے قرآن پاک کی برکت محسوس ہوتی رہتی ہے، تو ایسا ادارہ جو رابع جماعت تک قال اللہ و قال الرسول کی تعلیم دیکر آپ کو دیگر لائن اپنانے کا اختیار دیگا تو پھر اسکی برکتوں کا کیا کہنا!!!
٥. نرے عصری اداروں سے آئے ہوئے بچے قوم کی قیادت میں اپنا رول نبھانا چاہتے تو ہیں لیکن خلفیہ اسلامی ماحول سے دور ہونے کی وجہ سے کبھی وہ قوم کو ہی دور لیکر جانے لگتے ہیں یا وہ خود ہی قوم سے دور ہو جاتے ہیں، ایسے میں ضرورت ہے ایسے قائدین کی جن کی ابتداء ہی اسلامی ماحول والے کیمپس سے ہوئی ہو اور پھر وہ ایک اچھی خاصی عمر اسلامی تعلیم میں گزار کر دیگر جہتوں میں خوشہ چینی کرنے گئے ہوں تو وہ یقیناً زیادہ موثر کردار ادا کر سکتے ہیں اپنی قوم کی بھلائی میں.
6. قوم کی اولین اکائی گھر اور خاندان ہے جو کہ ماڈرن نظام کے پڑھے لکھوں سے ٹوٹ رہی ہے، جہاں ماں باپ اپنے بچوں کے مسلسل عقوق کا شکار ہیں تو دوسری طرف ازدواجی زندگیاں تلخ ہورہی ہیں حتیٰ کہ اس پریشانی اور بے چینی کے عالم میں کمزور دل اشخاص خودکشیاں اپنانے کا سوچ لیتے ہیں ایسے میں ضرورت ہیکہ ایک بچہ خواہ وہ کسی بھی تعلیم کا حصہ بنے علی الاقل اپنے ماں باپ کے حقوق کی ادائیگی اور انکے ساتھ حسن سلوک کا برابر سوچتا رہے، اور ایک دینی و علمی ہاسٹل کی زندگی اسے بقاء باہم سکھاتی رہے نا کہ خود کشی.
إِنۡ أُرِيدُ إِلَّا ٱلۡإِصۡلَٰحَ مَا ٱسۡتَطَعۡتُۚ وَمَا تَوۡفِيقِيٓ إِلَّا بِٱللَّهِۚ عَلَيۡهِ تَوَكَّلۡتُ وَإِلَيۡهِ أُنِيبُ
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين