تقوی : دین اسلام کی حقیقی اسپرٹ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان 1442 سایہ فگن ہے، اپنی رحمتوں اور برکتوں کے ساتھ ختم ہوا ہی چاہتا ہے، اس ماہ مبارک میں روزوں کا اصل فلسفہ سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیئے اور یہ جاننا بھی چاہیئےکہ روزہ رکھنا کوئی معمولی کام نہیں ہے بلکہ ایک طرف جہاں یہ روزہ انسانی جسمانی مادی طاقتوں کو توڑتا ہے، شہوتوں کو لگام لگاتا ہے وہیں انسان کی روح کی گہرائیوں میں بھی اتر کر یہ اپنا کام دکھاتا ہے. اور تقوے کو پروان چڑھاتا ہے وہ تقوی جسکا حقیقی مقام ہی انسان کا دل اور اسکا اندرون ہے اور یہ بات پیغمبر اسلام ﷺ سے بھی ثابت ہے کہ (التقوى ههنا، ويشير إلى صدره..) اس اہم اسپرٹ اور فاورفل ٹریننگ کو جاننے کے بعد انسان کی طبیعت میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہیکہ آخر اس تقوے کا فلسفہ کیا ہوگا اور اسکی حکمت و افادیت کیونکر ممکن ہے اور اس چیز کو ہم دین کے پرسپیکٹیو سے کیسے ڈفائن کریں سکتے ہیں.
تو اگر چہ علماء اسلام کی عبارتیں اس کی تعریف کے تعلق سے مختلف ہوں لیکن حسن سب کا ایک ہے، وہ یہ کہ تقوی وہ رکاوٹ ہے جو انسان کو اپنے رب کے غضب اور اسکی پکڑ سے روک دے، جو ایسے بیریکیٹ کا کام کرے کہ جس سے انسان اپنے اور اپنے رب کی نافرمانی کے درمیان ایک دیوار حائل کرلے اور کبھی کوئی نافرمانی نہ کرے، بلکہ وہ فرمانبرداری کا پتلا بن جائے وہ اس طرح سے کہ اگر اللہ کے دئیے گئے حکم کو نہ ماننا چاہے تو یہی تووی ایکٹیویٹ ہوجائے اور اسے اللہ کی حکم عدولی سے روکے، اور اگر کبھی وہ اللہ کے منع کئے ہوئے کام کو کرنا چاہے تب بھی یہ تقوی اسکی راہ میں حائل ہوجائے الغرض اسلام کا خواہ کوئی بھی کام ہو وہ تقوے سگ خالی نہیں ہے.
اگر اسلام سابقہ نبیوں والا مراد لیا جائے تو وہاں بھی یہی تقوی نظر آتا ہے، حضرت نوح سے لیکر حضرت ہود اور دیگر تمام انبیاء اپنی قوموں سے یہی کہتے تھے : إِذْ قَالَ لَهُمْ أَخُوهُمْ هُودٌ أَلَا تَتَّقُونَ.
گویا انسانوں سے تقوی کا مطالبہ کبھی بھی بند نہیں ہوا ہے اور نہ کبھی یہ بند ہوگا کیونکہ یہی اسلام کی حقیقی اسپرٹ ہے