مسجد اقصی یہودی معاہدوں سے بہت بلند ہے
فواد اسلم المدنیؔ
ابھی بحرین نےبھی یہودی غاصب ریاست اسرائیل سے معاہدہ کر لیا ہے، اس سے پہلے متحدہ عرب امارات نے معاہدہ کیا ، اردن ،مصر اور دیگر عرب و مسلم حکومتیں کافی پہلے ہی معاہدہ کرچکی ہیں جبکہ فلسطینی اتھارٹی تو ان کے ساتھ گفت و شنید کرکے ہی کام کرتی ہے ۔تو آخر ایسا کیوں ہے؟ کیا اسرائیل ایک نارمل ملک ہے جو کسی فتح یا قانونی پروسیس سے وجود میں آیا ، یا وہ عالمی سازش اور برطانیہ کے بندر بانٹ کا نتیجہ اور اقوام متحدہ کی ناجائز اولاد ہے؟ ان سوالات کے جوابات روزِ روشن کی طرح عیاں و بیاں ہیں جو ہر کسی کی سمجھ میں آ سکتے ہیں۔ اب آئیےآگے کا مرحلہ دیکھتے ہیں کہ وجود میں آنے کے بعد اس کا رویہ وہاں کی عوام کے ساتھ کیسا رہا ؟ عربوں پر کتنی جنگیں مسلط ہوئیں، اور فلسطینی مظلوم قوم کتنی بار اپنی سرزمینوں سے بےدخل ہوئی اور برابر بے دخل ہوتی رہتی ہےاور اگر وہ قوم اپنے دفاع میں انتفاضہ کا سہارا لیتی ہے تو پھر کیسے اس کو کچل دیا جاتا ہےاور ان کا بچا کھچاجو غزہ سٹی ہےوہ اب ایک طرح سے چوطرفہ محصور اور جیل کی مانند ہو کر رہ گیا ہے، اس کے باوجود بھی اسرائیلی میزائیلیں آئے دن اس شہر پر اترتی رہتی ہیں ۔
اگر اسرائیل اپنے وجود کے بعد کسی بہتری کا ثبوت دیا ہوتا گزشتہ ستر سالوں میں تو اس کی طرف لوگوں کے ہاتھ خود بخود بڑھتےیا وہ خود ہی پیس اور سلام کا پیغام لیکر دوسرے ملکوں میں جاتا ، لیکن گزشتہ نصف صدی سے زائد عرصہ میں جو کچھ ہوا ہے وہ کسی دردناک پھوڑے سے کم نہیں ہےلیکن اس پر یہ مسلم حکومتیں کیا سوچ کر اپنا ہاتھ اسکے ہاتھوں میں دے رہی ہیں ؟ ان کے اندر آخر چل کیا رہاہے؟ کیا یہ معاہدات ایک جال ہیں کہ اس میں کمزور پھنس جائےاور مضبوط نکل کر باہر آجائے، یا یہ سب علاقائی عدمِ استحکام اور تجارتی مندی کو ختم کرنے کا کوئی رام بان علاج ہے، یا پھر خطے میں بن رہے روس، چین اور ایران وغیرہ کے حمایتی بیلٹ کے سامنے اہلِ عرب اور بالخصوص اہلِ سنت کا اپنا مضبوط بیلٹ بنانا مقصود ہے یا کوئی اور سبب و سیاسی پینترا بازی ۔واللہ اعلم
ان سب کے درمیان ایک عام مسلمان خود کو کہاں پاتا ہے ؟ کیا اسے موجودہ دور کی لبرل اور لادینی نظامِ حکومت کی اندھی اقتدا کرتے ہوئےاحتجاج، مارچ ، مظاہرہ اور دیگر فتنہ و فساد کا سہارا لیکر اپنے اپنے ملکوں کی حکومتوں کے درپے ہو جانا چاہیئے،تاکہ تختہ پلٹ اور بغاوت جیسی رذیل الشان حرکتوں کا ارتکاب ہو اور اس کے نتیجے میں ملی اور ملکی حالات اور زیادہ ابتری کا شکار ہوں، اور رہی سہی حکومتیں اور بچا کھچا استحکام بھی داؤں پہ لگ جائے، جیسا کہ عرب بہاریہ میں کئی ریاستوں کی حالت ہوئی تھی جو ابھی تک اپنی صورت بھی درست نہیں کرسکی ہیں۔ اور اس سے فائدہ بھی صرف انہیں مغربی اقوام اور یہودیوں کو ہوا ہے جو عالمِ اسلام کیلئے ہمیشہ عدمِ استحکام کی تمنا کرتے رہتے ہیں، اور ہم یہ اہم نکتہ سمجھنے سے پہلے اپنا بہت کچھ گنوا چکے ہوتے ہیں۔
اس سیناریو سے اگر کوئی یہ سمجھتا ہیکہ مسلمان ”نہ جائے ماندن ، نہ پائے رفتن“ والی کیفیت میں پہونچ گیا ہےتو پھر یہیں سے ایک دوسری کٹیگری وجود میں آتی ہے جو نحیف العلم والجسم ہونے کے ساتھ نحیف الدین لوگوں پر مشتمل ہوتی ہے، یہ نہایت کمزور حیلے والے لوگ ہوتے ہیں، اور دین و ایمان سے کافی دوربہت دور، اور ان میں ایک قسم کا یأس اور قنوط پنپ چکا ہوتا ہےجو انہیں کبھی انہزامیت و مرعوبیت تک پہونچا دیتاہےتو کبھی مایوسی و ناامیدی کے سمندر میں ڈبا کر الحاد و بے دینی کی راہ پر لگادیتا ہے، جہاں سستی و کاہلی اور قومی و ملی امور سے لاپرواہی بری طرح سے اپنا قدم جما لیتی ہے۔ نسأل اللہ السلامۃ والعافیۃ
مسئلے کا حل : ان دونوں فکری و نظری انتہاؤں کے درمیان ہی وہ حق ہے جس پر چل کران مشاکل کا مناسب حل نکل سکتا ہے، اور اسی حلِ وسط کویہ امتِ وسط مانتی بھی ہےکافی حد تک ،الحمد للہ۔اور اس حل کانام ہے ” اللہ کے دین کی طرف لوٹنا جملۃً وتفصیلاً“ ۔ اسی ایک پتھ پر چل کر مسلمانوں کو اسلام کے ابتدائی دنوں میں ہی وہ عظمت و شوکت ملی کہ انہیں بیت المقدس بلا کر اس کی چابھیاں د ی گئی تھیں اور شام کے کئی علاقوں کے نصاری مسلمانوں کی حکومت میں وہ امن اور خوشحالی محسوس کرنے لگے تھےجو انہیں اپنے ہی ہم مذہب عہد قیصری میں بھی نصیب نہ تھی۔اور اسی بات کو صدیوں پہلےمدینۃ الرسول کے بڑے عالم حضرت امام مالک رحمہ اللہ نے ان الفاظ میں کہا تھا کہ :” لن يصلح آخر هذه الأمة إلا ما أصلح أولها “.اس امت کے آخری حصہ کو وہی چیزیں درست کریں گی جن سے اس امت کا اول درست اور ٹھیک ٹھاک ہوا تھا۔ اللہ کے دین کی طرف لوٹنا بظاہر یہ ایک مجمل بات ہے لیکن عمل کے لحاظ سے یہ بڑی تبدیلی کا نام ہے اور الحمد للہ عالم اسلام من جملہ طور سے اسی فارمولے پر یقین کامل رکھتا ہے، سوائے چند جماعات و افراد کو چھوڑ کر، اگرچہ عمل کے میدان میں کوتاہی بہت زیادہ ہے۔
مسجد اقصی کا مقام اسلام کی نظر میں:- امام الموحدین ،ابو الانبیاءحضرت سیدنا ابراہیم علیہ وعلی نبینا افضل الصلاۃ والتسلیم کے ذریعہ فلسطین میں بنائی مسجد اقصی ، جس کی حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے عہد میں تجدید فرمائی تھی ، اس کا مقام اسلام کے اندر مسلم ہے بلکہ ہر دور کے انبیاء علیہم السلام کے مطمحِ نظر یہ مسجد رہی ہے، اور جسے اسلام کے ابتدائی ایام ( مکی زندگی)سے ہی قبلہ اول مانا گیا یہانتک کہ ہجرت کے کچھ مہینوں بعد تک مسلمان اسی مسجد کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہے۔ قرآن پاک میں تقریباً پانچ جگہوں پر اللہ رب العالمین نےاس مسجد کے اردگرد خیروبرکت کے نزول کی خبر دی ہے۔اور پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ میں اس مسجد کو بہت اونچا مقام دیا ہےکہ یہ ان تین مساجد میں سے ہے جس کی طرف ثواب کی نیت سے سفر کیا جاسکتا ہےاور اس مسجد کی فتح کی جا بجا پیشین گوئی بھی فرمائی ہے، بلکہ اگر دیکھا جائے تو پورا ارض شام ہی فضائل و مناقب والی سرزمین قرار دیا گیا ہے احادیثِ رسول میں۔
لہذا مسجد اقصی کا معاملہ مسلمانوں کی عقیدت اور شریعت دونوں سے جڑا ہوا ہے اور ان کی تاریخ کا سب سے زریں باب بھی اسی مسجدِ اقصی میں کھلتا ہےجس سے ایک مسلمان کیلئے ادنی درجہ میں بھی دست بردار ہونا ممکن نہیں ہے۔ اور اگر صرف دنیا داری اور کاروباری انداز میں بھی دیکھا جائےتو مسلمانوں کے خلیفہ کو مسیحیوں کے سب سے بڑے گرو نےجب یروشلم بلاکر ان کو بیت المقدس کی چابھی دی تھی اور ان سےجن چند باتوں کا عہد لیا تھا یا نصیحت کی تھی انہیں میں سے یہ بات بھی تھی کہ کبھی اسے یہودیوں کے حوالے مت ہونے دینا ، لہذا مسلم قوم کا یہ ذمہ بنتا ہیکہ وہ اس عظیم عہد کا پاس رکھے جس پر ان کے آباء واجداد صدیوں سے قائم رہے اور اس کے لئے اپنا ہر غالی و نفیس قربان کیا۔
الغرض ہر اعتبار سے قوم مسلم کا تعلق مسجدِ اقصی سے جڑا ہوا ہے، لیکن ان یہودی معاہدوں کے سائے میں ہمیں اپنا تعلق بیت المقدس سے ہرگز کمزور نہیں ہونے دینا چاہیئے، خواہ حکومتیں کسی بھی حد تک جائیں ایک مسلمان کہ جس کے لئے دنیا کے تمام مسلمان بھائی ایک ایسے جسم کی حیثیت رکھتے ہیں جس میں ہلکی سی بھی تکلیف تمام مسلمانوں کو پریشان کر دیتی ہے اور یہی ان کے ایمان اور ولاء وبراء کا طرۂ امتیاز بھی ہے ۔ اس صورتِ حال میں انہیں اسلام کی طرف سے یہ رہنمائی ملتی ہے کہ وہ اپنی حکومتوں اور اولوالامر کے ساتھ سمع و طاعت اور فرمانبرداری کا معاملہ کریں اور کبھی بھی اپنا ہاتھ انکی اطاعت سے نہ کھینچیں، اور نہ ہی کسی منکر کا انکار کرتے ہوئے کسی اور بڑے منکر کا مرتکب ہوجائیں ، بلکہ اپنی حکومتوں کے ساتھ قلباً و قالباً کھڑے رہیں ۔ کیونکہ حکومتوں کی مضبوطی ہی سے رعایا کی مضبوطی ہےاور فی الحال عالمِ اسلام جس ضعف اور کمزوری سے گزر رہا ہےاسے بھی دھیان میں رکھنا چاہیئے، بالخصوص ایسے دانشوروں کو جن کا ایک کلمہ یا ایک جملہ عوام کی ایک بڑی تعداد کوبھڑکا سکتا ہے، بلکہ انہیں اپنی عوام کو ( يسّروا ولا تعسّروا بشرّوا ولا تنفّروا ) کا درس دینا چاہیئےاور یہ بتانا چاہیئے کہ ہم اپنے اولوالامر سے حسنِ ظن کا معاملہ رکھیں، ان کے لئے دعائیں کریں اور ان کی سطوت میں اضافہ کا سبب بنیں ، نا کہ انہیں کمزور کریں۔ اور اگر ان کی طرف سے کسی ناپسندیدہ چیز کا ظہور ہو تو ہم اس پر صبر کریں ، اپنے حالات مضبوط و مستحکم بنائیں، اپنی تعلیم اور تجارت و معیشت کو فروغ دیں اور ساتھ ہی ساتھ امت کیلئے دعا گو رہیں ۔ اس سلسلے میں ہمارے وہ مسلمان بھائی جو غیر مسلم حکومتوں کے تحت رہتے ہیں انہیں اس امر کو سمجھنا چاہیئے کہ ہم جو چاہتے ہیں اسکے اور جو کچھ واقع ہو چکا ہے اس کے درمیان بڑا فرق ہے ، اس فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں اور اس بات کو جتنی جلدی سمجھ لیں اتنا ہی اچھا ہےکہ ہم جس قومی ریاستوں کے عہد میں داخل ہو چکے ہیں اس عہد کی جو خصوصیات اور شرائط ہیں ان کا مکمل لحاظ رکھنا چاہیئے، اپنے دین پر کامل تمسک اور اعتصام بالکتاب والسنہ کے ساتھ ۔ اور اسی بات پرتمام مسلمانِ عالم کو اپنے بچوں کی تربیت کرنی چاہیئےکہ وہ اپنے دل میں ، دماغ میں اور اعضاء و جوارح پر کتاب و سنت کی حکمرانی رکھیں اور جس عہد سے گزر رہے ہیں اس کی پوری جانکاری بھی رکھیں، اور ایک بہت زیادہ ضروری امر یہ ہیکہ مؤثراور باکردار سیاسی بیداری ضرور بنائے رکھیں ، تاکہ مسلمان غثاء کغثاء السیل( سیلابی جھاگ) نہ ہو جائیں ، بایں طور کہ ہر دور کے اپنے کچھ خاص معرکے ہوا کرتے ہیں ، ان معرکوں کو اسی عہد کی تکنیک سے لڑا جاتا ہے، ان سب باتوں کے ساتھ ہی ساتھ وہ ہمیشہ بیت المقدس کو اسی قدسیت اور مقام و مرتبہ کے ساتھ یاد رکھیں جس پر ان کے دین نے ان کو ابھارا ہے، اور وہ کبھی بھی اس مشعل کو اپنے اندر بجھنے نہ دیں، بلکہ اپنی دعاؤں میں اللہ تعالی سے تمام مسلمانوں کی بہتری کے ساتھ مسجد اقصی کی بہتری بھی مانگ لیا کریں، اور یاد رکھیں کہ آج جو بین الاقوامی حالات ہیں وہ یکساں و ہمیشہ نہیں رہنے والے ہیں، وہ بدلتے رہتے ہیں ۔ لہذا ایسی صورت میں ہمیں اپنی دینی پوزیشن کو بدلنا نہیں چاہیئے، ہمیں اس مسجد کے تئیں ہمیشہ اپنے دینی و شرعی موقف پہ قائم رہنا چاہیئے تاکہ حالات جب بھی ہمارے موافق ہوں تو ہم اپنی چھنی ہوئی چیز کیلئے ہر اعتبار سے تیار رہیں اور ہرگز کسی انتکاسہ اور لا پرواہی کا شکار نہ ہوں ، علماء کا کہنا ہیکہ ہر جگہ اہلِ حق باطل کی ترکتازیوں اور محاذآریوں سے ہی مغلوب نہیں ہوتے ہیں ، بلکہ کئی بار وہ خود اپنی سستی اور کاہلی کی وجہ سے مارے جاتے ہیں۔ اس موقعے پہ اللہ رب العالمین کی یہ آیت کریمہ ہمارے لئےکسی شعار سے کم نہیں ہےکہ: وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿ آل عمران: ١٣٩﴾ترجمہ : ” تم نہ سستی کرو اور نہ غمگین ہو، تم ہی غالب رہو گے، اگر تم مومن ہو“۔اور یہی کچھ نصیحت و وصیت ہم اہلِ ہند اپنے بچوں سے کریں اور ساتھ ہی ساتھ اس ملک میں گرائی گئی بابری مسجد کو اپنے اندر ہمیشہ زندہ رکھیں اور اس کی حقیقت اور اس کے ظالمانہ انہدام کے واقعے کو برابر اپنے بچوں کو پڑھاتے اور بتاتے رہیں۔
إِنْ أُرِيدُ إِلَّا الْإِصْلَاحَ مَا اسْتَطَعْتُ ۚ وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّـهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَإِلَيْهِ أُنِيبُ
فواد اسلم المحمدی المدنی
۱۶؍ ستمبر ۲۰۲۰